مُفتی جی

یہ تحریر 3001 مرتبہ دیکھی گئی

بزرگ اہلِ قلم کے قلمی انٹرویوز پر مشتمل کتاب ”پَسِ تحریر“ کے لیے مفتی صاحب کو سوال نامہ بھیجا تو چند روز بعد یہ مختصر سا جواب آیا:

”—- بھائی، کتابی، نصابی، نقّادی سوالات کے جواب نہیں دیا کرتا۔“

میں نے اس کے جواب میں لکھا:

”سرکار، مانگنے والے کے دامن کو نہ دیکھیں۔ اپنی شان کے مطابق کچھ عطا فرمائیں۔“

اس سادہ سے جواب پر مفتی جی ریجھ گئے۔ دو تین دن بعد اُن کا خط ملا۔ فرمایا:

”منوّر، تُو نے مجھے خوش کیا، اللہ تجھے خوش رکھے۔ دو چار دن میں تیرے سوالات کے جواب بھجوادوں گا۔“

دو چار ہی دن بعد ایک بھاری بھرکم لفافہ موصول ہُوا۔ اس میں سے میرے ۰ ۵ سوالات کے جوابات کے علاوہ ”الکھ نگری“ کے مسودے کے کچھ original اوراق بھی برآمد ہُوے۔ ساتھ میں ایک مختصر ساا خط بھی تھا۔ فرمایا:

”—- یہ لو اپنے سوالات کے جواب۔ اپنی آئندہ کتاب ”الکھ نگری“ کے کچھ اوراق بھی بھیج رہا ہوں۔ ان میں بھی شاید کوئی معقول بات نکل آئے۔ یہ کاغذ مجھے واپس نہ بھیجنا۔ میں نے ان کی فوٹوکاپی رکھ لی ہے۔“

اخبار کے سائز کا جواب نامہ دیکھنے کے لائق تھا۔ مفتی صاحب نے ایک فُل سائز کاغذ پر جوابات لکھنے شروع کیے تھے۔ کاغذ کم پڑ گیا تو اسی سائز کے کاغذ کی پٹّیاں کاٹ کر جواب نامے کے دائیں بائیں، اُوپر نیچے چسپاں کر دیں اور بقیہ جوابات اُن پر لکھ دیے۔ یُوں اس وسیع و عریض کاغذ کو بہت کچھ گُھما پھرا کر مکمل جوابات پڑھے جا سکے۔ اللہ کے بندے، اتنے تردّد کی بجائے فل سائز ہی کے دو تین کاغذوں پر جوابات لکھ کر اُنھیں آپس میں نتھی کر دیتے —- مگر مُفتی تو نہ ہُوے جو یہ عامیانہ سی ترکیب اختیار کر لیتے!

خط و کتابت جاری رہی۔ ”پسِ تحریر“ چھپ کر آئی تو مفتی صاحب کا خط موصول ہُوا:

”فلاسفر، خوب محنت کی ہے تُونے۔ بہت مفید کتاب بنی ہے۔“

ایک خط میں اپنی مصروفیات کا ذکر کرتے ہُوے لکھا:

”پڑھنے لکھنے سے جو وقت بچ جاتا ہے وہ ہومیو پیتھی میں صرف کر دیتا ہوں۔“

”—- یہ ہومیو پیتھی کہاں سے آ جاتی ہے؟“ میں نے پُوچھا۔

جواب میں مفتی صاحب نے لکھا:

”—- میں نے خدمتِ خلق کے لیے ہومیو پیتھی سیکھی تھی۔ لوگ بہت دعائیں دیتے ہیں۔“

”پاکستان ٹائمز“ میں مفتی صاحب کے بارے میں میرا مضمون چھپا تو دو تین دن بعد مفتی صاحب کا خط آیا: ”—- یار تُم نے مجھے بہت لمبے بانس پہ چڑھا دیا۔ مجھے حُکم ہے چھوٹے بن کر جیو۔“

ایک خط میں فرمایا: ”—- ۹ ۸ برس کا ہو چُکا ہوں۔ سامان باندھے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھا ہوں۔ نہ جانے کس وقت گاڑی آ جائے۔“

دسمبر ۴ ۹ ۹ ۱ میں چند روز کے لیے اپنے بیٹے کے ہاں پنڈی جانا ہوا تو سوچا مفتی صاحب کی زیارت بھی کر لی جائے۔ اگلے دن صبح تقریباً ۱۱ بجے اسلام آباد میں مفتی صاحب کے دَرِدولت پہ حاضر ہُوا۔ یہ اُن سے پہلی ملاقات تھی۔ ایک بڑا ہال سا کمرہ۔ ایک جہازی سائز کی میز اور دو کُرسیاں۔ بس یہی فرنیچر تھا اُس کمرے میں۔ مفتی صاحب کمبل اوڑھے ایک کُرسی پہ تشریف فرما تھے۔ میں نے اپنا نام بتایا تو اُٹھ کر تپاک سے ملے۔ کہنے لگے: ”—- تو تُم ہو منوّر ملک —- فلا سفر!“

میں نے کہا: ”جی ہاں، وہی ہوں —- مگر مجھے فلاسفر تو نہ کہیں۔“

ہنس کر کہنے لگے: ”تم مانو نہ مانو، فلاسفر تو تم ہو۔“

گفتگو علیک سلیک سے آگے بڑھی تو معلوم ہُوا صاحب گھر میں صرف اور صرف اپنی پوٹھوہاری زبان ہی میں بات کرتے ہیں۔ مجبوراً مجھے بھی بُری بھلی یہی زبان بولنا پڑی۔ اس زبان میں لکھنا نہیں آتا، اس لیے گفتگو کا حسبِ توفیق خلاصہ اُردو ہی میں لکھنا پڑ رہا ہے۔

یہ پہلی ملاقات، ملاقات کم، انٹرویو زیادہ تھی:

کہاں رہتے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ کیا پڑھتے ہو؟ کیا لکھتے ہو؟ کچھ سوالات میانوالی کے کلچر کے بارے میں تھے۔ میانوالی سے مفتی صاحب کی دلچسپی محض تجسّس نہ تھی بلکہ موصوف نے بچپن کے بہت سے دن یہاں گزارے تھے، کیونکہ ان کے والد ِمحترم یہاں محکمہ تعلیم کے افسر تھے۔

میانوالی کے بعض گلی محلّوں اور قبیلوں کے نام مفتی صاحب سے سُن کر فخر سا محسوس ہُؤا کہ میانوالی لاکھ دُور اُفتادہ سہی پرورشِ لوح و قلم میں اس کا کُچھ نہ کُچھ کردار ضرور ہے، بالواسطہ بھی، بلاواسطہ بھی۔ نامور افسانہ نگار ہرچرن چاولہ اور رام لعل تو تھے ہی میانوالی کے۔ قیامِ پاکستان کے وقت مجبوراً اِدھر سے اُدھر چلے گئے۔ عبداللہ حسین نے ”اُداس نسلیں“ میرے گاؤں داؤدخیل کے نواحی قصبے سکندر آباد میں بیٹھ کر لکھا۔ موصوف اُس وقت یہاں کی سیمنٹ فیکٹری میں انجینئر تھے۔ اب مفتی صاحب کا بھی میانوالی سے، بالواسطہ ہی سہی، تعلّق ایک خوشگوار انکشاف تھا۔

”پسِ تحریر“ پراجمالی تبصرہ کرتے ہوے مفتی صاحب نے کہا:

”—- میں نے تمھاری کتاب ”درد کا سفیر“ بھی پڑھی ہے۔ خاصی دلچسپ کتاب ہے۔ یار، مجھے تمھاری تحریر میں ایک چمک سی نظر آتی ہے، جو بہت کم تحریروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔“

مفتی صاحب نے جس چمک کا ذکر کیا وہ مجھے تو اپنی تحریر میں آج تک کہیں نظر نہیں آئی، مگر اُس وقت اُن سے اختلاف کی جسارت اس ڈر سے نہ کر سکا کہ مُفتی ہیں، کہیں کُفر کا فتویٰ نہ لگا دیں۔

دَمِ رُخصت اپنے افسانوں کے دو مجموعے مجھے عنایت کیے، پھر کہنے لگے:

”یار، ایک بندہ ہے رجنیش نام کا —- بہت پہنچی ہوئی باتیں کرتا ہے۔ امریکہ میں بھی اُس کے ہزاروں مُرید ہیں۔ اُس کی باتوں کی ریکارڈنگ اس وقت تو میرے پاس نہیں ہے، کہیں سے منگوانا پڑے گی۔ اگلی دفعہ تُم آؤ گے تو تمھیں دوں گا۔“

”شکریہ سر“، میں نے کہا، ”آپ کے ہاتھ سے جو کُچھ بھی ملے میرے لیے اعزاز ہی ہوگا۔“

کُچھ عرصے بعد پھر پنڈی آیا تو سلام کے لیے حاضر ہُوا۔ مفتی صاحب اور اُن کی بیگم لان میں بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی مفتی صاحب نے کہا:

”فلاسفر، تمھارے لیے رجنیش کی باتوں کا کیسٹ میں نے منگوا لیا ہے۔“ یہ کہہ کر اُٹھے اور کیسٹ لانے کے لیے کمرے میں چلے گئے۔

میں نے بیگم مفتی سے کہا: ”سُنا ہے ہر کامیاب آدمی کی کامیابی کسی خاتون کی مرہونِ منّت ہوتی ہے۔ مفتی صاحب کے بارے میں یہ بات کس حد تک درست ہے؟“

ہنس کر کہنے لگیں: ”یہ تو تُم نے مجھے اس عُمر میں شک میں مبتلا کر دیا —- ابھی آتا ہے تو پُوچھتی ہوں، بتا کون ہے وہ؟“

مفتی صاحب نے کیسٹ میرے سپرد کرتے ہوے فرمایا:

”یار، یہ بندہ باتیں تو بہت اچھی کرتا ہے، مگر ایک بات ہے، وہ یہ کہ اس کا کیسٹ گھر میں رکھنے سے گھر پہ ایک نحوست سی طاری ہو جاتی ہے۔“

میں نے اُسی وقت یہ سوچ لیا کہ اس کیسٹ کا کیا کرنا ہے۔ شکریہ کہہ کر کیسٹ جیب میں ڈال لیا۔ دل ہی دل میں مفتی صاحب کا مزید شکریہ ادا کیا کہ اُنھوں نے مجھے اس تحفے کے side-effects سے بھی آگاہ کر دیا۔

میں نے مفتی صاحب کی افسانہ نگاری کا ذکر چھیڑا تو مفتی صاحب نے فرمایا: ”ہر شخصیت میں کُچھ paradoxes ہوتے ہیں۔ ہر paradox کے اندر ایک اور paradox، اُس کے اندر ایک اور، جیسے ڈبے میں ڈبہ، اُس کے اندر ایک اور، پھر ایک اور —- میں بس ان ہی paradoxes کو expose کرتا ہوں تو بات بن جاتی ہے۔“

پھر کہنے لگے: ”تُم انگریزی میں بھی لکھتے ہو۔ کیسا لگتا ہے انگریزی میں لکھنا؟“

میں نے کہا: ”سر اُردو، انگریزی دونوں کا اپنا اپنا مزا ہے۔ انگریزی میں اندازِبیاں اور ذخیرہئ الفاظ کی بہت زیادہ ورائٹی ہے اس لیے اس میں لکھنے میں بہت لُطف آتا ہے۔“

فرمایا: ”نگریزی کی ایک بڑی خُوبی یہ ہے کہ اس میں مُفتی، مُفتی ہی رہتا ہے۔ صاحب اور جناب وغیرہ جیسے تکلّفات نہیں ہوتے۔“

میں رُخصت ہونے لگا تو فرمایا:

”ایک بات یاد رکھنا: عام لوگوں کے لیے لکھوگے تو لوگ تمھیں سلام کریں گے، تمھارے ہاتھ چُومیں گے۔ شاعروں، ادیبوں اور نقّادوں کے لیے لکھو گے تو یہ لوگ حسد کے مارے تمھیں لفٹ ہی نہیں کرائیں گے۔“

بات سو فی صد درست تھی۔ میں نے اپنی پہلی کتاب ”درد کا سفیر“ عام آدمی کے لیے لکھی تھی۔ اس پر میرے دوست اقبال کوچوان سے لے کر جناب محمد سلیم الرحمن اور مُفتی صاحب تک سے داد ملی۔ سینکڑوں لوگ یہی کتاب پڑھ کر میرے مستقل دوست بن گئے۔ یہ کتاب ۲۹۹۱ میں چھپی۔ ۲۰۰۲ میں اس کا دوسرا ایڈیشن آیا۔ اب یار لوگ تیسرے ایڈیشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس کے مقابلے میں میری کتاب ”جان ملٹن“ اہلِ علم و ذوق کے کام کی چیز تھی۔ بہت ریسرچ کی تھی میں نے ملٹن پر۔ ہر قابلِ ذکر تحریر پڑھ کر ملٹن کے فن اور شخصیت پر مستند حوالوں سے روشنی ڈالی۔ غرض بہت سی خوبیاں تھیں اس کتاب میں۔ مگر چند بہت زیادہ پڑھے لکھے دوستوں کے سِوا کسی نے اس کتاب کے بارے میں دو لفظ بھی کہہ کر نہ دیے۔

مفتی صاحب سے اجازت لے کر میں گھر کو روانہ ہُوا۔ ہمارے گھر کے قریب سیوریج کا ایک جوہڑ سا ہے۔ میں نے جیب سے رجنیش کا کیسٹ نکال کر اس جوہڑ کے سپرد کر دیا۔ پھر اچانک یہ خیال ستانے لگا کہ اگلی ملاقات میں مفتی صاحب نے رجنیش کے بارے میں پُوچھ لیا تو کیا جواب دوں گا؟

کیا خبر تھی کہ اگلی ملاقات ہوگی ہی نہیں!

ایک دو دن بعد میں پنڈی سے واپس میانوالی آ گیا —- کُچھ عرصے بعد یہ خبر سُنی کہ مفتی صاحب بیمار ہیں۔ میں نے عیادت کا خط بھیجا۔ مفتی صاحب نے جواب میں فرمایا:

”میں اس وقت عُمرکی جس منزل پر ہُوں یہاں بیماری جانے کے لیے نہیں، لے جانے کے لیے آتی ہے۔“ چند روز بعد پتا چلا کہ اب کی بار بیماری واقعی لے جانے کے لیے آئی تھی۔ مفتی صاحب تو سامان باندھے پہلے ہی تیار بیٹھے تھے، ”لبّیک“ کہہ کر چل دیے!