مقدمہ دیوان چرکین

یہ تحریر 2242 مرتبہ دیکھی گئی

(۱)

            ہم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے لڑکپن میں چرکین کے دو چار شعر نہ سنے ہوں۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے (میں بھی ان میں شامل ہوں) جنھوں نے ایک دو شعر چرکین کے یاد بھی کر لئے ہوں گے۔ لیکن چرکین کے مزید کلام کی تلاش شاید دو چار لڑکوں یا بزرگوں نے بھی نہ کی ہو۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کی طالب علمی کے زمانے میں (یعنی آج سے کوئی پچپن ساٹھ برس پہلے) اکثر لوگ چرکین کے کلام کو تہذیب سے گرا ہوا قرار دیتے تھے۔ اور اب بھی ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو چرکین تو کیا، سودا، میر، اور جرأت وغیرہ کی ہجوؤں کے بارے میں بھی محمد حسین آزاد کے ہم خیال ہوں کہ اس کلام کو سن کر شرافت شرم سے آنکھ بند کر لیتی ہے۔اٹھارویں صدی کی اکثر ہجویات کے بارے میں یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ وہ بہت ”فحش“ ہیں۔ایسی صورت میں چرکین جیسے”کھلے ہوئے“ شاعر کو فحش اور خلاف تہذیب قرار دیا گیا تو کیا تعجب ہے۔ چرکین کو عموماً  شاعر ہی نہیں قرار دیا جاتا، اگر بہت مہربانی کی جاتی ہے تو انھیں ”ہزال“، ورنہ غلاظت آلودہ کہہ کر چھٹی کر دی جاتی ہے۔

            جیسا کہ شاطر گورکھپوری نے اپنے مبسوط دیباچے میں لکھا ہے، لوگ عام طور پر ”فحش“ اور ”برازیات“ میں فرق نہیں کرتے، یعنی ہم لوگ عموماً ”برازیات“ کو بھی ”فحش“ کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ اور یہ کچھ تعجب کی بات بھی نہیں، کیوں کہ اردو میں ایسے کلام کے لئے کوئی اصطلاح ہی نہیں ہے جس میں بول و براز کے مضامین وارد ہوئے ہوں۔انگریزی میں اسے Scatologyاور مختصر العوام میں Scatکہتے ہیں۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے عربی اور فارسی میں بھی ایسی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ میں  نے”المورد“ دیکھی تو اس میں دراسۃ الغائط والبراز  درج ہے  جو لفظ کا ترجمہ ہے، اصطلاح نہیں۔ حیم کے انگلیسی فارسی لغت میں ”گفتاردر سنگوارہ ہائے سرگینی“ درج ہے جو صحیح ترجمہ بھی نہیں، کیونکہ ”سنگوارہ“ کے معنی ہیں ”محجر، یعنی Fossil، اور ظاہر ہے کہ Scatologyمیں ہر طرح کے برازیاتی مضمون ہوتے ہیں، اس میں محجر کی شرط نہیں۔ کچھ غور کے بعدمیں نے  Scatology کا متبادل ”برازیات“ تجویز کیا ہے  اور مجھے خوشی ہے کہ شاطر گورکھپوری نے اسے ہی استعمال کیا ہے۔

              شاطرصاحب نے خیال ظاہر کیا ہے کہ عربی فارسی میں بھی برازیات کسی نہ کسی حد تک موجود ہے۔میں اس کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا، لیکن فارسی میں اگر برازیات کسی نے کہی ہوگی تو  وہ سبک ہندی والا فارسی گو، اور اغلب یہ ہے کہ ہندوستانی رہاہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برازیات در اصل مضمون آفرینی کے عالم سے ہے، یعنی بات میں بات پیدا کرنا، کوئی نئی بات کہنا، کسی پرانی بات کو نئے پہلو سے پیش کرنا، اوراس کوشش میں دور تک نکل جانا، کہ جسے بعد کے لوگوں نے ”نازک خیالی“، اور سترہویں صدی کے سبک ہندی والوں نے ”معنی نازک آفریدن“ سے تعبیر کیا۔

            اس بات سے قطع نظر کہ مضمون آفرینی اور معنی آفرینی دو تصورات ہیں جو ہندوستانیوں نے قائم کئے،مضمون آفرینی کے دو خاص محرکات ہیں: (۱) زبان کے امکانات کو دریافت کرنا اور زبان کی حدوں تک (بلکہ بیدل کے یہاں اس سے بھی آگے تک)پہنچنے کی کوشش کرنا، اورزبان کی نارسائی کا شدت سے احساس رکھنا۔(۲) اپنے گردوپیش کی دنیا کے حقائق و کوائف کو تخیل کی آنکھ سے دیکھنا اور دکھانا۔دونوں محرکات کی بدولت شاعر کوفحش گوئی سے لے کر پیچیدہ ترین مسائل حیات، کائنات میں انسان کی حیثیت اور قدر وقیمت، المیہ اور طربیہ،ہر طرح کی بات کہنے کے لئے صلاحیت اور ذوق پیدا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر محمد قلی سلیم کے یہ دو شعر ملاحظہ ہوں۔ پہلے شعر میں تھوڑی سی فحاشی ہے لیکن اس کا مضمون بھی لاجواب اور نادرہے، یعنی ”جوتی چور“۔ دوسرے شعر کا مضمون طاعون، موت، نارسائی، وصل میں ہجر،کئی حقائق حیات کا احاطہ کرتا ہے   ؎

            (۱) دزدے بہ کس مادر خود برد کفش من

                                    صد شکر می کنم کہ درو پاے من نہ بود

            (۲) کام عاشق  چو در آید بہ بغل می میرد

                                    غنچہ بر شاخ دل ما گرہ طاعون است

            ممکن ہے آپ کو اعتبار نہ آئے، لیکن میرا پختہ خیال ہے کہ سبک ہندی کے باہر یہ اشعاروجود میں نہیں آسکتے تھے۔ چرکین کا بھی یہی معاملہ ہے کہ ان کا رنگ کلام سبک ہندی کے فروغ کے بغیر نمودار نہ ہو سکتا تھا۔ اور یہ بھی چرکین کے کلام کی ادبی قدر و قیمت کی ایک دلیل ہے۔چرکین کے یہاں کہیں کہیں، اور معدودے چند، ایسے الفاظ ضرور ہیں جو ”فحش“ کی ضمن میں آسکتے ہیں، لیکن ان کا زیادہ تر کلام گو موت جیسی ”غیر شاعرانہ“ باتوں میں کچھ مزاحیہ اور کچھ مضمون آفرینی اور خیال آفرینی کے رنگ پیدا کرنے سے عبارت ہے۔ ایسے مضامین میں مزاحیہ رنگ تو آسان ہے، لیکن عقل مندی، خیال آفرینی، اور استعارہ و رعایت کی چمک دمک لانا بہت ہی مشکل ہے۔یوں بھی، چرکین کو فحش قرار دینا زیادتی ہے۔ فحش کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اعضاے جنس اور/ یا جنسی افعال کا بیان کھلی زبان میں اس طرح کیا جائے کہ اس سے لذت پیدا ہو، یا ایسا بیان، جو لذت پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا ہو اور جس میں جنس اور اس کے متعلقات و افعال کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہو۔چرکین پر اس تعریف کا اطلاق بمشکل ہی ہو سکتا ہے۔

            لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ تعریف ایسی ہے جوالگ الگ شخصوں کے لئے الگ الگ معنی رکھے گی، اور فحش/غیر فحش کا انحصار خود پڑھنے والے کی ذہنی کیفیت پر ہو گا۔ اس کی مثال  کے لئے یہ مشہور لطیفہ ہے:

ایک شخص کسی ماہر نفسیات کے پاس گیا کہ جنسی خیالات ہر وقت میرے ذہن میں سمائے رہتے ہیں۔ میں زندگی سے تنگ آگیا ہوں، کوئی کام کر ہی نہیں سکتا، جنس ہر وقت میرے ذہن پر چھائی رہتی ہے۔مجھے علاج کی ضرورت ہے۔

ماہر نفسیات نے کچھ بالکل ابتدائی اقلیدسی شکلیں، مثلاً مثلث، مربع، دائرہ، اسے دکھائیں اور پوچھا کہ یہ شکلیں آپ کے ذہن میں کیا تاثر پیدا کرتی ہیں؟مریض نے ہر شکل کو دیکھ کر فوراً کسی نہ کسی جنسی عضو یاچیز کا نام لیا۔ ماہر نفسیات نے کہا، ”صاحب،واقعی جنس آپ کے ذہن میں بے حد اور بہت دور تک چھائی ہوئی ہے۔“

”میرے ذہن پر جنس چھائی ہوئی ہے! بہت خوب!“ مریض نے تنک کر کہا۔ ”اور یہ جو آپ مجھے مسلسل ننگی تصویریں دکھائے جا رہے ہیں تو آپ کے ذہن پر کیا سوار ہے؟“

            لہٰذا ”فحش“ اور”غیر فحش“ مطلق انواع(Absoplute Categories) نہیں ہیں۔ لیکن یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ چرکین کے یہاں فحاشی بہت کم ہے، اور اگر کلام کے ذریعہ جنسی لذت پیدا کرنے یاحاصل کرنے کی شرط کو فحاشی کے لئے سب سے اہم شرط قرار دیں تو چرکین کا کوئی شعر مشکل ہی سے فحش کہلا ئے گا۔ ہاں ”خلاف تہذیب“ کی بات اور ہے۔یعنی چرکین کا کلام ایسا کلام نہیں ہے کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کو پڑھایا جا سکے یا اسے ان کے سامنے پڑھا جاسکے۔ اس شرط کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن یہ شرط کوئی چرکین کے لئے انوکھی نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے پہلے کا کوئی اردو شاعرشاید ایسا نہیں کہ اس کے کلام کا کچھ نہ کچھ حصہ ”خلاف تہذیب“ نہ کہا جا سکے۔ لیکن ”خلاف تہذیب“ بھی اضافی اصطلاح ہے۔ آخر دنیا میں ایسی فلمیں روزانہ بنتی ہیں جنھیں A یعنی Adultسرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ یعنی وہ ”صرف بالغوں کے لئے“ہوتی ہیں لیکن وہ بے کھٹکے تمام سنیما گھروں میں دکھائی  اور دیکھی جاتی ہیں۔ بہت چھوٹا بچہ ہو تو خیر، لیکن عام حالات میں ٹکٹ گھر کا بابو ٹکٹ خریدنے والے سے بلوغت کا ثبوت تو نہیں مانگتا۔ اور پھر اب تو سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا زمانہ ہے کہ جو فلم چاہیں گھر بیٹھے دیکھ لیں۔لہٰذا ”خلا ف تہذیب“  کا تصور بھی اضافی اور موضوعی (Subjective)ہے۔

            خیر، ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ چرکین کاکلام ایسا نہیں ہے کہ اسے کھلے بندوں پڑھا پڑھایا جا سکے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ چرکین نے ایسا کلام لکھا کیوں؟ کیا ہم فحش گو شعرا(مثلاً استاد رفیع احمد خاں، ڈاکٹر اشرف عریاں، اور پہلے کے لوگوں میں ایک حد تک صاحب قراں دہلوی اور ان سے بھی پہلے میر جعفر زٹلی) کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ جنسی لذت یا گدگدی پیدا کرنے سے انھیں دلچسپی تھی؟ظاہر ہے کہ رفیع احمد خاں کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے۔ رفیع احمد خاں کویقیناً دنیا اور معاملات دنیا سے دلچسپی تھی اور ان کے تصور حیات میں طنز (Irony)کو بہت عمل دخل تھا۔ صاحب قراں کا سارا کلام فحش نہیں ہے اور انھوں نے فحش اور غیر فحش میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ کبھی کبھی توپوری غزل سیدھی سادی کہنے کے بعد مقطع میں وہ کوئی فحش بات ڈال دیتے ہیں۔ جعفر زٹلی اول تو طنز نگار ہیں، پھر بگڑے دل اور زمانہ و ابناے زمانہ پر برہم سخت تلخ فکر و تلخ کام جوان ہیں، پھر اس کے بعد کہیں وہ کھرے فحش نگار ہیں۔ اور ان کے فحش کلام میں پھکڑ پن، فحش براے لذت، یا ہولی کے فلک سیر کی پیدا کردہ افزوں خیالی (exuberance) کے ابلتے،  لہراتے ہوئے اظہار جیسے کئی رنگ ملتے ہیں۔ڈاکٹر اشرف عریاں کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے یہاں ”ادب براے فحاشی“ کا انداز زیادہ حاوی ہے۔

            لیکن یہ سب لوگ بہر حال فحش گو تھے، برازیات ان کا میدان نہ تھا۔جعفر زٹلی سے زیادہ سخت فحش گو ہمارے یہاں شاید کوئی نہیں ہوا، لیکن انھیں برازیات سے براے نام ہی شغف ہے۔اور وہ برازیات کے عالم سے الفاظ اسی وقت لاتے ہیں جب ان سے معنی کا کوئی پہلو پیدا ہوتا ہو۔ مثلاً وہ ایک ”چہرہ“ لکھتے ہیں جس میں صاحب چہرہ کا نام ”چھجا مل پرنالہ سنگھ“ لکھ کر اسے ”ساکن سنڈاس پور“ لکھتے ہیں اور اس کی ”گوز دانی“ کو ”فراخ“ بتاتے ہیں۔سودا اور میر کی ہجویات میں کہیں کہیں براے نام برازیات ملتی ہیں۔ یعنی برازیات کی کوئی روایت ہمارے یہاں ایسی نہیں نظر آتی جس کو اپنے تہذیبی ورثے کا حصہ سمجھ کر چرکین نے اسے اختیار یا قبول کیا ہو۔لاطینی اصطلاح  میں چرکین بالکل sui generis (از خود پیدا شدہ) معلوم ہوتے ہیں۔ بظاہر ان کا کوئی پیش رو نہیں، پیرو البتہ بہت نکلے۔تو پھر چرکین نے یہ رنگ کیوں اختیار کیا؟

            یہ سوال بظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، اور اس کا جواب شاید کبھی مل بھی نہ سکے، الا کہ ہم یہ کہیں کہ چرکین کا رجحان طبع برازیات کی طرف تھا۔ لیکن یہ جواب سراسر دوری (Circular)ہے، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔چرکین کے کلام کا مطالعہ کریں تو پہلی نظر میں وہ ہمیں خلاف تہذیب باتیں نظم کرنے والے ہزال معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہر کر اور تنقیدی نظرکے ساتھ ان کا کلام پڑھا جائے تو دنیا کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے۔پہلی بات تو یہ کہ چرکین نے غزل کے مضامین یوں لکھے ہیں کہ مضمون آفرینی بھی حاصل ہوئی ہے اور غزل کے مقبول عام طرز کی پیرو]ڈ[ی بھی ہو گئی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پیروڈی نگار بظاہر تو اصل عبارت یا متن کا مذاق اڑاتا ہے لیکن در اصل وہ اسے خراج تحسین و عقیدت پیش کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پیروڈی نگار کو اپنے ہدف کے طرز  بیان، اس کی کمزوریو ں اور مضبوطیوں،اس کی ذہنی ساخت، ان سب پر مکمل دسترس ہوتی ہے، یا ہونی چاہیئے۔ایسا نہ ہو تو پیروڈی کا لطف اور اس کی تنقیدی معنویت جاتی رہے گی۔لہٰذا چرکین اگر کامیاب پیروڈی نگار ہیں (اور بیشک ایسا ہے) تواس کے معنی یہ ہوئے کہ چرکین کو اپنے زمانے کے مقبول طرز غزل گوئی، اور خود غزل گوئی کے نظری مباحث کا پورا احساس تھا۔ وہ غزل کے مزاج آشنا تھے، اسی باعث وہ اپنی غزل میں نہ صرف یہ کہ مروجہ مضامین کا  نہایت کامیاب خاکہ اڑاتے ہیں، بلکہ نئے مضامین بھی ایجاد کرتے ہیں۔  بالکل شروع دیوان کی غزلوں سے یہ چند شعر دیکھئے   ؎

                        پڑگیا مہتر پسر کے چاند سے منھ کا جو عکس

                        چاہ مبرز بے تکلف چاہ نخشب ہو گیا