مقدمہ دیوان چرکین

یہ تحریر 2066 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

            مختلف پیشوں کے لڑکوں کے بارے میں تعریفی، یا نیم مزاحیہ نیم تعریفی، یا طنزیہ شعر کہنا در اصل شہر آشوب کی روایت ہے۔ کلیم ہمدانی نے اسے عورتوں کی طرف منتقل کر کے بعض عمدہ غزلیں کہی ہیں   ؎

                        ز حسن شستہ دھوبی  چہ گویم

                        ازاں بے پردہ محبوبی  چہ گویم

یہاں دھوبن کی رعایت سے ”شستہ“ کس قدر عمدہ ہے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میر نے مختلف پیشوں سے متعلق لڑکوں کا ذکر کیا ہے، مثلاً   ؎

                        افسانہ خواں کا لڑکا کیا کہیئے دیدنی ہے

                        قصہ ہمارا اس کا یارو شنیدنی ہے

یہا بھی ”افسانہ خواں“ کی مناسبت سے ”کیا کہیئے“، اورپھر ”کیا کہیئے“ کی مناسبت سے ”دیدنی ہے“ کی خوبی ظاہر ہے۔اسی طرح،  ”افسانہ خواں“ کی مناسبت سے ”قصہ ہمارا اس کا“ کی خوبی بھی ظاہر ہے۔اور یہ بھی ظاہر ہے کہ چرکین بھی انھیں دونوں کی روایت کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں ”مہتر پسر“  اور ”چاہ مبرز“ کی مناسبت  داد سے مستغنی ہے۔ اسی طرح، ”چاند سے منھ“ کی مناسبت سے ”چاہ نخشب“ بھی نہایت عمدہ ہے۔ لیکن چرکین نے ان مضمون آفرینیوں  کے ساتھ معنی کی بعض باریکیاں بھی رکھ دی ہیں۔ ملاحظہ ہو:

            (۱)”مہتر“ کے معنی ”حلال خور، بھنگی“بھی  ہیں اور ”سردار قوم“ بھی۔

            (۲)اگر وہ سردار قوم کا بیٹا ہے تو اس کے چہرے کو”چاند“ سا فرض کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ حلال خور کا بیٹا ہے تو چاند سا چہرہ رکھنے کے لئے ممکن ہے کہ ا س کے نطفے میں کچھ ”شریف“ خون بھی شامل ہو۔

            (۳) چاہ مبرز پر مہتر پسر کے چاند سے چہرے کا عکس پڑ نے کے معنی یہ ہیں کہ متکلم یا تو ننگا اور اوندھا پڑا ہوا تھا اور مہتر پسر نے اس کے  مبرز میں تھوک دیا،      (۴) یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ مہتر پسر متکلم کے مبرز کی صفائی پر مامور تھا۔

            (۵)دونوں صورتوں میں معمولہ ظرافت کے علاوہ خود پر ہنسنے یا اپنا ہی مذاق اڑانے کی کیفیت نمایاں ہے۔

            لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شعر محض ”برازیات“ کا شعر نہیں، کچھ معنوی تہ داری بھی ہے۔ ایک دو شعر اور دیکھئے   ؎

                        گوہا چھی چھی پر مزاج یار پھر مائل ہوا

                        غیر سگ سیرت کی پھر صحبت میں وہ داخل ہوا

            ”گوہا چھی چھی“، جیسا کہ سب جانتے ہیں، تین لفظوں سے مرکب ہے: گو، ہا، چھی چھی۔ یعنی کسی شخص کا پاؤں یانگاہ گو پر پڑی، اور اس نے، یا دیکھنے والے نے معاً پکارا، ”گو،ہا!چھی، چھی…!“لہٰذا اس کلمے میں نجاست میں آلودگی اور نجاست سے آلودگی، شور غل، فجائیہ انداز گفتگو، یہ سب شامل ہیں۔ اس کلمے کے استعاراتی یا مستعمل معنی حسب ذیل ہیں:

            غلاظت، نجاست،بک بک  جھک جھک،  بد تہذیبی،رسوائی، ذلت و خواری

            معشوق کی سفلہ پروری یا خود معشوق کی سفلگی ہماری کلاسیکی غزل کے عام مضمون ہیں۔ اب ان مضامین اور مندرجہ بالا معنی کی روشنی میں شعر پر غور کریں:

            (۱) معشوق کا مزاج بار بار سفلگی کی طرف مائل ہوتا ہے۔

            (۲)معشوق ایسے لوگوں کو نگاہ پسندیدگی سے دیکھتا ہے جو سفلہ مزاج ہوں۔

            (۳) ایسے لوگوں کا (اور اس لئے خود معشوق کا) مزاج کتوں جیسا ہے، کہ وہ ہر وقت اور ہر چیز پر لڑتے اورشور مچاتے رہتے ہیں۔

            (۴) اس میں معشوق کی ذلت اور رسوائی ہے، لیکن اسے پروا کب ہے؟

            ایک اور شعر دیکھئے   ؎

                        جا نہ اہل آبرو کو دے کبھی گندہ مزاج

                        حوض پاخانہ میں کب تعمیر فوارہ ہوا

            یہ شعر تمثیلی انداز کا ہے، یعنی ایک بات کہی یا ایک دعویٰ کیا، پھر اس کے ثبوت کے لئے کوئی عمومی بیان لائے جو مبنی بر حقیقت ہو، یا حقیقت قرار دے دیا گیا ہو۔ ناسخ اور غالب نے اس طرح کے شعر بہت کہے ہیں کہ یہ سبک ہندی کا خاص رنگ ہے۔ناسخ   ؎

                        رتبہ اعلیٰ میں ظالم ترک کردیتے ہیں ظلم

                        پاؤں سے کاہش نہیں خار سر دیوار کو

پہلے مصرعے میں ایسا دعویٰ کیا جو ثابت ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن دوسرے مصرعے میں نہایت پیچیدہ (اور صحیح)د لیل لائے کہ ظالم کو کبھی نہ کبھی مظلوم کے ہاتھ پامال ہونا پرتا ہے۔ کانٹے ظالم ہیں، پاؤں میں چبھتے ہیں۔ لیکن جب ان کا رتبہ بڑھ جاتا ہے(یعنی وہ خار سر دیوار بنا دیئے جاتے ہیں) تو وہ کسی کو چبھتے نہیں، لہٰذا کسی کا پاؤں انھیں پامال بھی نہیں کرتا۔چرکین کا شعر بھی اسی طرح کے دعوے اور دلیل پر مبنی ہے۔ پہلے مصرعے میں ایسا دعویٰ کیا جس کی دلیل ممکن نہیں۔ لیکن دوسرے مصرعے میں عام زندگی سے دلیل لائے کہ بیت الخلا میں فوارہ نہیں بنایا جاتا۔

            مشکل زمینوں میں چرکین نے ایسے نادر گل کھلائے ہیں کہ شاہ نصیر اور ناسخ و آتش کی یاد آتی ہے   ؎

                        جیسی کرتا ہے کوئی ویسی ہی پیش آتی ہے

                        کھائے جو آگ ہگے گا وہی انگارے سرخ

                        بے قراری ہے تری اے دل ناشاد عبث

                        بے اثر گوز کے مانند ہے فریاد عبث

                        وصف لکھنا ہے تری کانچ کا اے سیم اندام

                        کیوں نہ ہو رنگ محرر دم تحریر سفید

                        گوہا چھی چھی کے جو مضمون تھے تحریر اس میں

                        یار نے موت کے دریا میں بہایا کاغذ

                        ساغری چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع

                        تیرے رخ کے سامنے پروانہ بن جاتی ہے شمع

                        اس پری نے واہ نام حسن کیا روشن کیا

                        مقعد دیوانہ عریاں میں جلواتی ہے شمع

            کسی کا قول ہے کہ برازیات نہایت اہم موضوع ہے، کیونکہ ہمارے سارے جسم کے نظام سے اس کا تعلق ہے۔ جو کچھ اندر جاتا ہے وہی کسی نہ کسی روپ میں باہر آتا ہے۔ یہ بات کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی، بلکہ ایک عام مشاہدے پر مبنی ہے۔ چرکین کو بول و براز اور اس کے متعلقات (بالخصوص گوز اور بواسیر) سے جو دلچسپی ہے اور جس جس طرح انھوں نے ان مضامین کو اپنے شعر میں باندھا ہے وہ ایک اور حقیقت کی طرف ہماری توجہ منعطف کرتا ہے۔ یعنی معشوق ہو یا شیخ، کسی کو بھی ان معاملات سے مفر نہیں۔ چرکین کی برازیات معشوق کو بیت الخلا کی سطح پر لا کر ہمیں یقین دلاتی ہے کہ معشوق بھی ہم جیساانسان ہے اور اس سے بھی وہی افعال سر زد ہوتے ہیں جو ہم عام، گندے، غیر نفیس، بدصورت انسانوں کے معمولہ افعال ہیں۔

ڈکنس (Charles Dickens) کی ہیروئنوں کے بارے میں والٹر ایلن (Walter Allen)نے دلچسپ بات کہی ہے کہ انھیں ہمیشہ قبض رہتا ہے۔ یعنی وہ اس طرح ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں گویا کوئی انسانی فعل (خاص کر بیت الخلائی فعل) ان سے سرزد ہی نہ ہوتا ہو۔ بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ منھ میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر ”غیر نفیس“ فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ بھی کھاتے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اسی طرح،ایک بار کسی انتہائی خوبصورت اور نازک اندام نوجوان لڑکی کو دیکھ کر کسی کے منھ سے بے ساختہ نکل گیا، ”کیا  ان جیسیوں کے ساتھ بھی وہی کام کیا جاتا ہو گا؟“ لہٰذاچرکین کی ایک بڑائی یہ بھی ہے کہ انھوں نے معشوق کے رومانی پیکر کی جگہ ایک زندہ انسان رکھ دیا   ؎

                        گو اچھالے گا سڑی ہوگا چنے گا تنکے

                        وہ پری گھر میں جوچرکین کے مہمان آئے

                        نظر پڑی تری اے یار جب سے موت کی بوند

                        ذلیل آنکھوں میں در خوش آب رہتا ہے

                        حاجت جو اس نگار کو استنجے کی ہوئی

                        آنکھوں کے ڈھیلے عاشق بدنام کے لئے

                        اس مہر کو گھر سے آتے دیکھا

                        ہگنے کے لئے جو تڑکے اٹھے

                        رونق افزا ہو جو پاخانے میں وہ رشک بہار

                        گل ہو لینڈی گو کی شبنم قطرہ پیشاب ہو

                        کانچ اس کی دیکھ کرچرکیں نہ ہو کیوں باغ باغ

                        خوش نما ہوتا ہے ایسا پھول کب کچنال کا

            چرکین کے کلام میں نئے (یا ہمارے لئے نامانوس)لفظ بہت ہیں اور زیادہ تر فرہنگیں ان سے خالی ہیں۔ ”اردو لغت، تاریخی اصول پر“(ترقی اردو بورڈ، کراچی) نے دیوان چرکین کو اپنے مآخذ میں شامل کیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اغلاط کتابت کے سبب سے چرکین کا کوئی مطبوعہ دیوان معتبر نہیں ہے۔ خود میرے پاس جو نسخہ اب تک تھا وہ بالکل بے ڈھنگا اور ناقص تھا۔ اسلم محمود نے از راہ کرم مجھے ۱۲۷۳ (۱۸۵۵/۱۸۵۶) کے مطبوعہ ایک نسخے کی فوٹو نقل عطا کی جو میرے نسخے سے بہت بہتر ہے۔ میں ان کا ممنون ہوں۔ لیکن اس نسخے میں بھی اغلاط کتابت بہت ہیں اور کئی نامانوس الفاظ کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ واقعی نامانوس ہیں یا ان میں سہو کتابت ہے۔

            ہمیں جناب شاطر گورکھپوری کا ممنون ہونا چاہیئے کہ انھو ں نے کئی مطبوعہ اور مخطوطہ نسخوں کی مدد سے دیوان چرکین کا یہ بہت اچھا نسخہ تیار کیا ہے۔علاوہ بریں، ان کی یہ جرأت رندانہ بھی لائق داد ہے کہ انھوں نے ترتیب و تدوین نو کے لئے چرکین جیسے مشکل اور اکثر لوگوں کی نظر میں محض ہزال و اضحوکہ شاعر چرکین کا دیوان منتخب کیا۔مجھے یقین ہے کہ دیوان چرکین کی یہ جدید اشاعت ثابت کردے گی کہ چرکین نرے ہزال اور ہنسوڑ قسم کے فحش گو نہیں ہیں، بلکہ ان کے کلام میں شاعرانہ فن کاری، لسانی دروبست،استعارہ سازی،اور مضمون آفرینی کے بھی رنگ چوکھے ہیں۔شاطر گورکھ پوری نے دیوان پر ایک مبسوط دیباچہ بھی لکھا ہے جس میں چرکین کی زندگی، ان کے کلام کی مختلف اشاعتوں اور تذکروں میں ان کے ذکر جیسے اہم معاملات پر گفتگو ہے۔ مجھے امید ہے کہ دیوان چرکین کی یہ اشاعت نو،اور شاطر گورکھپوری کا دیباچہ، دونوں ہی ادب کے شائقین کے لئے نادر تحفہ ثابت ہوں گے۔ جان صاحب نے دیوان چرکین کی تاریخ طبع لکھی تھی  ؎

                                    گل آدم  نے ہر اک صفحے کو گلشن بنایا ہے

                                    ہوا ہے شہد سے شیریں نئے آئین کا نسخہ

                                    عجب تاریخ یہ گوہیل کہی ہے جان صاحب نے

                                    سنا بی جان باجی کل چھپا چرکین کا نسخہ

                                                ۱۲۷۳

            میر یار علی صاحب اگر آج ہوتے تو یقین ہے یہ شعر اضافہ کردیتے   ؎

                                    ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ہم یہ کہتے ہیں

کہ پھر چھاپا میاں شاطر نے  چرک آئین کا نسخہ