مغربی ادب زبردستوں سے زیردستوں تک

یہ تحریر 1460 مرتبہ دیکھی گئی

جب تک مغربی اقوام نے اپنی صنعتی اور معاشی ترقی کے ذریعے سے باقی دنیا پر بالادستی حاصل نہ کی تھی توایشیا میں، بالخصوص مختلف علاقوں میں ادب اور ادبی روایات کے بارے میں اپنے اپنے تصورات موجود تھے۔ جیسے ایران اور ہندوستان میں غزل، قصیدہ، مثنوی اور برصغیر پاک و ہند کی مقامی زبانوں میں اپنی اپنی مخصوص ہیئتیں موجود تھیں۔ اسی طرح چین اور جاپان کی شعری اور ادبی روایات انفرادیت کی حامل تھیں۔
جب ان ممالک پر مغربی اقوام کا غلبہ ہوا تو مغربی ادب کی ہیئتوں اور رویوں کو بھی یہاں رواج ملا۔ جیسے ناول، افسانہ، تنقید، آزاد نظم۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ان ادبی اصناف کو مقامی ادبی اصناف پر غلبہ حاصل ہو چکا ہے۔ ہمارے اپنے سیاق و سباق میں اب کوئی داستان، مثنوی، قصیدے کا نام بھی نہیں لیتا۔ ناول اور افسانے لکھے جا رہے ہیں۔
موجودہ دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنیا کو بہت زیادہ قریب کر دیا ہے اور ادبی اور تہذیبی اثرات زبردستوں سے زیردستوں تک بڑی تیزی سے سرایت کر جاتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت مختلف ممالک کے ادب میں یکسانیت سی نظر آتی ہے۔ پاکستان چونکہ اسی بدلتی ہوئی اور ایک ہی رنگ اختیار کرتی ہوئی دنیا کا حصہ ہے اس لیے یہاں کے ادب میں بھی جدید مغربی ادب کی تمام جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ آزاد نظم بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں پروان چڑھنا شروع ہوئی اور اس میں ہر طرح کے تجربے کیے گئے۔ اگر آپ میراجی، فیض، ن م راشد اور مجید امجد کے کام پر نظر ڈالیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے مغربی ادب سے خاصا فیض اٹھایا ہے۔ بعض جدید تر شعرا جیسے افتخار جالب، انیس ناگی اور عباس اطہر نے ان سے بھی آگے جا کر جدید تر مغربی رویوں کو اپنایا۔ بس ہمارے ہاں ایک مشکل ضرور رہی ہے کہ غزل اتنی مستحکم صنف ہے کہ نئے شاعر بھی بالعموم تغزل سے دامن نہیں چھڑا سکتے۔ ان کی نظموں میں غزل کے نقوش جابجا نظر آتے ہیں۔
ناول اور افسانے میں بھی مغرب کی پیروی کی گئی ہے۔ پہلے سماجی حقیقت پسندی کا رواج ہوا، پھر اسی کو تھوڑا سا افادی رخ دے کر ترقی پسندانہ ادب وجود میں آیا۔ جب ترقی پسند تحریک کمزور پڑی تو غیر حقیقت پسندانہ افسانے کا رواج ہوا۔ افسانے کے بنیادی عنصر کہانی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے لیکن یہ انتہا پسندی بھی زیادہ دن نہ چلی اب افسانے اور ناول میں ایک درمیانی راہ اختیار کر لی گئی ہے۔ سب سے شدید اثر تنقید پر پڑا۔ لوگوں نے ایسے نظریات کا پرچار کیا جن کو انھوں نے مغربی تنقیدی کتابوں سے نقل کیا تھا مثلاً ساختیات اور ردِّتشکیل وغیرہ کا ذکر تو کیا لیکن یہ بتانے میں ناکام رہے کہ اس کا اطلاق خود ہمارے ادب پر کیسے ہو گا۔ اس ضمن میں اگرچہ کچھ احباب نے مردِ بحران بننے کی کوششیں بھی کیں لیکن ان کی اطلاقی تنقید سے، تنقیدی غرابت مزید کھل کر سامنے آئی۔ وہ متن کشائی کی بجائے متن کو معمہ بناتے نظر آتے ہیں۔ بشری علوم ترقی کی جن منازل پر پہنچ گئے ہیں شاید ہمیں اس کا اندازہ نہیں۔ ہمارا نقاد مارکسی، رومانی اور نفسیاتی دبستانوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
خالص مشرقی اصناف میں سے ایک صنف غزل کو دیکھیں تو ہر شاعر غزل کہے جا رہا ہے۔ کام اتنا سا ہے کہ قافیے پر قافیہ بٹھا کر ہر کوئی اپنے آپ کو خدائے سخن سمجھنے لگا ہے۔ ادھ کچرے خیالات کی جگالی ہو رہی ہے اور سخن شناس چپ ہیں۔ خیر وہ کریں بھی تو کیا، ہماری معاشرت بھی آسانیاں پسند کرتی ہے۔ لوگ کاٹھے بیروں جیسی شاعری کی کتابیں خرید رہے ہیں اور انھیں پڑھ بھی رہے ہیں۔ یہ تخلیقی زوال نہیں تو اور کیا ہے۔ لوگ آپ بیتیاں لکھے جا رہے ہیں جن میں بڑے اہتمام سے اپنے بہن بھائیوں کے نام اور ان کی تعداد بتائی جا رہی ہے۔ ادب سے اس بات کا کیا تعلق۔ اگر آپ کی زندگی سے ادب کے کچھ مخفی گوشے سامنے آتے ہیں تب تو درست ہے لیکن اگر آپ نے کمپنی کی مشہوری کرنی ہے تو براہِ مہربانی متبادل طریقہ استعمال کریں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ایڈورڈ سعید، نوم چومسکی، گارشیا مارکیز اور ارون دھتی رائے جیسے تجزیاتی ذہن نہیں پیدا کر سکے۔ کیا ہم ثقافتی سطح پر مفلوج ہو چکے ہیں۔ ہمارے اذہان پر لاشعوری پہرے بٹھا دیے گئے ہیں اور ہمارے سربراہ فنونِ لطیفہ کے بغیر بانجھ معاشرت کے قیام کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔
حکومتی دعووں کے باوجود ناخواندگی وہی ہے جو پہلے تھی۔ ہم پڑھنے کا ماحول ہی نہیں پیدا کر سکے۔ لوگوں کی ذہنی تربیت ہی ایسی نہیں کہ وہ لائبریریوں میں بیٹھ کر سکھ چین محسوس کریں۔ کاغذ کی قیمت ایک اور تماشا ہے۔ عام آدمی کتاب خریدتے جھجک محسوس کرتا ہے۔ ہم نے کتاب کو قاری کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے جب دوسرے ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں چھپتی اور بکتی ہیں، پاکستان میں کتاب کا پانچ سو کا ایڈیشن بک جانا معجزہ سمجھا جاتا ہے۔ جاسوسی ناولوں کی بات مختلف ہے۔ ہماری جامعات میں تدریسی طریقوں کا احیا ہونا چاہیے جن سے صحت مند ذہن پیدا ہوں اور وہ معاشرت کی تفہیم کریں اور مثبت اقدار کی ترویج میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ سب کچھ کرنے سے ہوگا مگر ہم نے ابھی کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/