مرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی کے مدرسہ کی سرزمین پر

یہ تحریر 439 مرتبہ دیکھی گئی

کچھ دنوں پہلے فارسی زبان و ادب کے سنجیدہ اسکالر پروفیسر اخلاق احمد آہن نے مدرسہ بیدل کا ذکر کیا تھا۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ ان سے گفتگو ہوئی۔ مدرسہ بیدل پٹنہ سٹی جسے پرانا عظیم آباد کہتے ہیں وہاں واقع تھا۔ اب اس سے متصل مسجد ہے جو مدرسے کے ساتھ بنوائی گئی تھی۔ اس علاقے میں پہلی مرتبہ 2003 میں حاضر ہوا تھا۔ایک تذکرے میں اشرف علی فغاں کی قبر کا شیر شاہی مسجد کے احاطے میں ذکر تھا۔ قبر اور کتبے کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ اس کی تفصیلات میں اپنی کتاب دیوان اشرف علی خاں فغاں میں لکھ چکا ہوں۔ آج صبح پانچ بجے میری ٹرین پٹنہ اسٹیشن پہنچ گئی۔ اس مرتبہ وطن آنے کی خوشی بےقراری میں تبدیل ہو چکی تھی۔اخلاق صاحب کو بتا دیا تھا کہ گھر جا رہا ہوں ارادہ ہے مدرسہ بیدل کی سرزمین پر حاضری کا۔ وہ خود بھی پہلے ہی اس علاقے میں آ چکے ہیں۔ بعض ضروری اطلاعات انہوں نے فراہم کر دی تھیں۔ مگر خود اپنی حاضری کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ آج پٹنہ کی صبح دھند سے بھری ہوئی تھی جس پر چادر کا گمان ہوتا تھا۔دھند کی اس چادر بلکہ شامیانے کے ساتھ میں پرانے عظیم آباد میں داخل ہوا۔ چائے کی دکانوں سے دھواں اٹھنے لگا تھا بعض مقامات پر لوگ چائے پی رہے تھے۔میں خود بھی کچھ وقت کے گزرنے کا انتظار کررہا تھا اور وقت یوں بھی تو گزر رہا تھا۔ بس یہ ہے کہ بیدل کی شاعری کے وقت کا کوئی لمحہ میرے وجود میں ٹھہر گیا تھا۔ یہ وہہ لمحہ تھا جو اس سرزمینِ پر آکر کچھ زیادہ فعال ہوگیا تھا۔ دھند کی جو چادر نگاہ کے سامنے تھی اسے وہ لمحہ کتنا خاطر میں لاتا۔ بیدل کی تعلیم و تربیت کا جو زمانہ اس سرزمین میں گزرا تھا شاید دھند کی اس چادر میں وہ زمانہ بھی خاموشی سے چھپ گیا تھا۔ سردی کی دھند یا دھند کی سردی آج میرے لئے پہلے جیسی نہیں تھی۔میں اپنی اس کیفیت کا اظہار کرنے سے قاصر ہوں جو اس راستے سے گزرتے ہوئے مجھ پر طاری تھی۔اس علاقے پر جو صدیاں گزری ہیں ان کے بارے میں ہماری اطلاعات کتنی کم ہیں۔ اگر اطلاعات ہوں بھی تو ہم انہیں محسوس نہیں کرتے۔ تاریخ دانوں کے احسانات سے کون اننکار سکتا ہے مگر یہ خواہش ہوتی ہے کہ حقائق کے اظہار میں لَو دینے کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ پرانے عظیم آباد کی تاریخی، تہذیبی اور علمی روایات کو ابھی توجہ سے دیکھا جانا باقی ہے۔ جو متون خانقاہوں اور لائبریوں میں محفوظ ہیں ان کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے گوکہ اس سلسلے میں کچھ تحریریں سامنے آچکی ہیں۔ مگر اب بھی بہت کچھ نگاہوں سے اوجھل ہے۔ پرانی عمارتوں میں دلچسپی بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ پھر یہ خیال آتا ہے کہ پہلے کے لوگوں نے قدیم عمارات اور کھنڈروں کے تعلق سے کون سی ایسی دلچسپی دکھائی کہ نئے حقائق سامنے آجائیں۔ اس علاقے میں آج تیسری بار آیا تھا اور ذہن عمارتوں اور کھنڈروں کی گرفت میں تھا۔ کچھ عمارتیں دھند کے باوجود دکھائی دے رہی تھیں۔ قدیم عمارتوں اور کھنڈروں کا بھی عجیب مقدر ہے کہ ان کے آس پاس دکانیں کھل جاتی ہیں۔ اشیاء فروخت ہونے لگتی ہیں۔ بے حسی رفتہ رفتہ لوگوں کا مقدر نہیں بلکہ ضرورت بن جاتی ہے۔ قدیم عمارتوں اور گرتی ہوئی چھتوں سے نکلنے والی آوازوں کو سننا تو کسی اور عالم میں خود کو لے جانا ہے۔ مدرسہ مسجد کے قریب ہی ایک گرودوارا ہے۔ پورے راستے کو سجایا گیا تھا۔ دسویں سکھ گرو گرو گوبند سنگھ1666 میں پٹنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ مقام مدرسہ بیدل کے قریب ہے۔ تو یہ پورا راستہ روشن تھا۔ ایک شامیانہ تو دھند کا تھا اور اس کے نیچے دوسرا شامیانہ قمقمے اور جھالر کا تھا۔ اسی مقام سے کوئی چند کلو میٹر کے فاصلے پر امداد امام اثر کی جائے پیدائش ہے۔ امداد امام اثر نے کہا تھا:
آہ سوزاں کا اگر اونچا دھواں ہوجائے گا
آسماں اک اور زیر آسماں ہوجائے گا
دھند نے ذہن کو شل نہیں کیا بلکہ محسوس ہورہا تھا کہ اس علاقے اور شہر کی تہذیبی اور علمی روایت کو اسی نم ناک فضا میں دیکھا جانا چاہئے۔ بیدل نے ایک شعر میں جس غبار کا ذکر کیا ہے وہ زندگی کی بدصورتی کی علامت بن گیا۔ فیض کو بیدل کا یہ شعر بہت پسند تھا۔
ہر کجا رفتم غبار زندگی درپیش بود
یارب ایں خاک پریشاں از کجا برداشتم
آج اس علاقے میں غبار تھا ہی نہیں یہ کہنا غلط ہوگا غبار بیٹھ گیا تھا اور بیٹھے ہوئے غبار کو کریدنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ یوں دیکھیں تو بے خانماں شاعر اور ادیب زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ ضمیر علی بدایونی نے بیدل کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے۔ بیدل عظیم آباد میں پیداہوا، دہلی میں انتقال ہوا اور افغانستان کا قومی شاعر بن گیا۔ یہ سلسلہ اور سفر گردش متن تو نہیں مگر ایک معنی میں گردش متن بھی ہے۔ اب دھند تھوڑی چھٹ چکی ہے میں مدرسہ کے احاطے میں داخل ہوگیا ہوں۔ جی چاہا کہ جوتے اتار لوں مگر زمین اتنی نم تھی کہ ہمت نہیں ہوئی۔ مگر علامتی طور پر جوتے اتار لیے۔ صبح کی نماز ہوچکی تھی مسجد کے اندرونی حصے میں ایک صاحب تسبیح پڑھ رہے تھے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور پنے آنے کا مقصد بتایا۔ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارا کیا کہ وہاں امام صاحب ہیں۔ امام صاحب بھی تلاوت میں مشغول تھے۔ اجازت چاہی تو اندر بلالیا۔ وہ مجھے مسجد کے احاطے میں لے گئے اور کچھ تاریخی حوالوں کا ذکر کیا۔ ان کے پاس کوئی تحریر نہیں تھی بلکہ زبانی روایت تھی۔ مگر سب سے بڑا حوالہ تو مسجد اور اس کے درودیوار ہیں۔ ایک پتھر پر عبارت درج تھی جسے مشکل سے پڑھا جاسکا۔ پتھر بھی خاصی بلندی پر تھا۔ مسجد اپنی قدیم صورت میں موجود ہے۔ مسجد کا اندرونی دروازہ خاصا لمبا چوڑا ہے ۔ امام صاحب کہنے لگے کہ یہ دروازہ بہت قدیم ہے شاید اس پر چار صدیاں گزر گئیں۔ طاق بھی اپنی قدامت کی گواہی دے رہا ہے۔ طاق کو دیکھ کر میں رک گیا دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ طاق کی لمبائی گہرائی سے زیادہ تھی۔ کئی کونوں میں طاق تھے۔ مسجد کے اندرونی حصے میں تھوڑاوقت گزرا۔ امام صاحب اور میرے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ایک سناٹے اور خاموشی کا احساس تیز تر تھا۔ میں تھا تو مسجد میں مگر شاید ذہنی طور پر کہیں اور تھا۔ امام صاحب مسجد کی تاریخ سے زیادہ واقف تھے اور یہ تمام تر واقفیت زبانی تھی۔ میری دوسری دلچسپی مدرسے میں تھی جو مدرسہ بیدل سے موسوم ہے۔ مگر اب مدرسے کے مقام پر عمارتیں بن گئی ہیں۔ مدرسے کو اگر محفوظ رکھا جاسکتا تو عظیم آباد کی تاریخی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم ترین حوالہ بھی محفوظ ہوجاتا۔ میں نئی عمارتوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا یہ سوچ کر کہ سرزمین تو وہی ہے۔ کیا معلوم بیدل نے اسی مقام پر مدرسے میں سبق لیا ہو جہاں میں کھڑا ہوں۔ مدرسے میں ملنے والا سبق تو زور سے پڑھا اور سنایا جاتا ہے۔ صدیاں گزر گئیں مگر مدرسے کے اسباق فضا میں گونج رہے ہوں گے۔ ان آوازوں میں ایک آواز بیدل کی بھی ہوگی جو عالمگیر بن گئی۔ میں نئی عمارتوں کو اس حسرت اور افسوس کے ساتھ دیکھتا رہا کاش مدرسے کی عمارت کو محفوظ رکھا جا سکتا کچھ گرتی ہوئی دیواریں یا چھت ہی ہوتیں ان کے سائے میں تھوڑا وقت گزار لیتا۔ پلکوں کے سائے تو بڑی بات ہے مگر کھنڈروں کے سائے کا مقابلہ تو کسی سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نئی عمارتوں کے مکیں خواب غفلت میں تھے مگر انھیں کیا پتا جس سرزمین پر نئی عمارتیں ہیں ان کی تہ میں آوازیں دفن ہیں۔ تہ خاک، جگر سوختہ ہی نہیں آوازیں بھی تڑپتی ہیں۔ مگر ان معاملات کا رشتہ احساس سے ہے۔ یہاں سودا کی زبان میں کہیں تو کوئی برنگ شعلہ کچھ بھی زمین سے برآمد نہیں ہوتا۔ گل زمیں سے نکلتے ہیں برنگ شعلہ‘‘ اردو کے سب سے بڑے محقق قاضی عبدالودود نے اس علاقے کی عمارتوں کو تحقیقی وتاریخی نقطہ نظر سے دیکھا نہیں۔ وہ اگر توجہ گرتے تو کچھ حقائق آج زیادہ روشن ہوتے مگر انہیں متون میں دلچسپی تھی عمارتوں میں نہیں۔ مدرسے اور مسجد کے درمیان ایک حوض ہے جو تقریباً بھر گیا ہے مگر حوض کی شکل وہی ہے جو ابتدا میں تھی۔ تو ایک حوض ہے جو مدرسے اور مسجد کے درمیان کے رشتے کا اظہار ہے۔ مدرسے کے طلبا اور نمازی دونوں اسے استعمال کرتے تھے۔ مسجد سے اتر گنگابہتی ہے جو مسجد سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہی گنگا ہے جو کبھی پانی کے راستے کا وسیلہ تھی ۔ غالب اسی راستے سے کلکتہ گئے ہوں گے۔ میرا قیاس یہ ہے کہ سفر کلکتہ کے دوران عظیم آباد میں غالب کا قیام اسی مدرسے میں رہا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد اور مدرسہ کو تہذیبی اور علمی ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ اس مدرسے میں تاریخ، طب، ریاضی، جغرافیہ وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔ ملا نصیرالدین یہاں کے استاد تھے۔ 1628 میں مسجد تعمیر کی گئی۔ شاہ جہاں کے ہم زلف سیف خان نے مسجد بنوائی تھی۔ وہ ان دنوں بہار کا گورنر تھا۔ مدرسہ بھی اسی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس مدرسے میں اس وقت 270 طلبا اور 10ا ساتذہ تھے۔ راجارام موہن رائے نے اس مدرسے سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو، راجندر پرشاد، محمد علی جوہر، شوکت علی، محمد علی جناح آئے۔ یہ مدرسہ اور مسجد ملکی اور سیاسی حالات پر غوروفکر کرنے کا اہم مرکز بن گئی ۔ داغ دہلوی بھی یہاں تشریف لاچکے ہیں۔ یہ مسجد پانچ گنبد والی مسجد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر مدرسہ مسجد کی تاریخ اتنی بڑی ہے کہ اس کی روشنی میں عظیم آباد کی تہذیبی اور علمی تاریخ کی کچھ ٹوٹی ہوئی کڑیاں جڑسکتی ہیں بلکہ بعض اہم حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ بیدل عظیم آبادی کا اس مدرسے سے جو تعلق ہے اس میں چند ادیبوں اور اسکالروں کی دلچسپی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس تاریخی حوالے کو بھی لوگ بھولتے جاتے ہیں۔ نجیب اشرف اور حمید عظیم آبادی نے تھوڑے فرق کے ساتھ بھاشا کا ایک شعر بیدل سے منسوب کیا ہے مگر اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اختر اورینوی نے اس سے بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہوسکتا ہے بیدل نے یہ شعر پٹنہ کو خداحافظ کہتے ہوئے کہا ہو:
سر اوپر کوئی نہیں دشمن آپن کیس
پٹنہ نگری جھاڑ دہن اب بیدل چلے بدیس
کل کی یہ تحریر آج پوسٹ کی جارہی ہے اور یہ اتفاق ہے کہ 25 دسمبر شمس الرحمن فاروقی صاحب کے رخصت ہونے کی تاریخ بھی ہے۔
بیدل پر اس مختصر سی تحریر کا رشتہ شمس الرحمن فاروقی کی بیدل پسندی سے بھی ہے۔ کئی چاند تھے سر آسماں کے پہلے صفحے پر بیدل کا ایک شعر درج ہے جس کا گہرا تعلق کئی چاند تھے سر آسماں کے متن سے ہے۔
بہرزمیں کہ خبر گیری از سواد عدم
فتادہ نامہ ما سر بہ مہر نقش قدم
میرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی
میں نے اپنی کتاب نکتہ ہائے فاروقی (نثار احمد فاروقی کے مضامین) 2018 میں شائع ہوئی اور یہ کتاب شمس الرحمن فاروقی کے نام معنون کی گئی تھی۔ انتساب میں میں نے بیدل کا شعر ان کی نذر کیا تھا۔
خورشید کہ ہر روز بہ اطراف دبیدہ
یک رنگ گل روئے تو یک رنگ نہ دیدہ

24 دسمبر 2022
عظیم آباد کی ایک سرد اور دھند بھری صبح