محمد سلیم الرحمٰن اور ثروت حسین

یہ تحریر 2253 مرتبہ دیکھی گئی

            محمد سلیم الرحمن نے ادبی دنیا میں ایک منفرد مقام ہونے کے باوجود صرف چندکتابوں پرفلیپ لکھے۔منیر نیازی کی تیز ہوا اور تنہا پھول‘ ظفر اقبال کی آبِ رواں اور ثروت حسین کی آدھے سیارے پر‘ اور یہ سب شاعر اردو ادب میں ایک نئی طرز کے بانی کے طور پر ابھرے اور یہ کتابیں اپنی طرز کی منفرد کتانیں ثابت ہوئیں۔(کچھ عرصہ پہلے صابر ظفر کی ایک کتاب کا بھی) محمد سلیم الرحمن کی مطابق فلیپ لکھنا ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ ثروت کی کتاب پر فلیپ لکھنا بھی اسی مقصد کے تحت تھا کہ اس کے مزاج میں خودکشی کے رجحانات بہت شدیدتھے۔ اسی لیے اس فلیپ میں بھی شعوری طور پر اسے ایک طرح سے اخلاقی طور پر اس بات کا پابند کرنے کی سعی تھی کہ وہ دل گرفتہ یا خوش گمان ہو لیکن اسے اسی زمیں پر رہنا ہے۔ آپس کی گفتگو میں بھی ثروت کو ان نفسیاتی الجھنوں سے بچانے کی بات چلتی رہتی تھی اور دوست احباب کے اس مثبت اور ہمدردانہ طرزِ عمل نے جو سلیم صاحب کے اس فلیپ سے بھی عیاں ہے جس میں وہ پوری توانائی سے انہیں خودکشی سے روکنے کے لیے اسے اپنا سیارہ تبدیل نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

اس پر آشوب عہد میں‘ جہاں بعض دفعہ دن دہاڑے بھی شب کی سیاہی کا سماں ہوتا ہے، یہ درد مند آواز جس میں انسانوں کو زندہ اور سیراب رکھنے والے ہر مظہر کو چاہنے اور سینت رکھنے کی اتنی سکت ہے،کسی چراغاں سے کم نہیں۔ ثروت نے اس دنیا کو اپنی میراث بلکہ امانت جانا ہے۔ اپنا سیارہ تبدیل کرنے کی اسے کوئی تمنا نہیں۔ رنج ہو یا راحت، امیری ہو یا فقیری، اس کا آب و دانہ یہیں ہے۔

 اس سب نے ثروت حسین کی تخلیقات میں بھی اظہار پایا جب وہ کہتے ہیں کہ                                   

؎            مجھے اپنا سیارہ تبدیل کرنے کی خواہش بھی کیوں ہو   

کہ اب بھی زمیں پر بڑا حسن ہے اور گھمبیرتا  ہے

؎            دل گرفتہ کہ خوش گمان  رہوں

انہی لوگوں کے درمیان رہوں

؎            زمیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا‘ نیا شہر ایک بساؤں گا

مرے بخت نے مرے عہد میں مجھے اختیار اگر دیا

            اپنا سیارہ تبدیل نہ کرنے کے عہد کے باوجود اگر اسے زمیں چھوڑ کر جانا پڑا تو کیا یہ اس کی اپنی پسند تھی یا اس اختیارکے کھو جانے کی تھی جو  اسے دیا گیا اور جسے وہ کھو بیٹھا۔ غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ شاعر بنیادی طور پہ حسن پرست ہوتا ہے۔شاعر کی اہم ترین صفت جو اسے عام آدمی سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی کائنات میں پائے جانے والے حسن کا مکمل احساس کرنے کی حس ہے۔ حسن اسے اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے اور وہ اسے بغیر کسی رکاوٹ کے سراہنے اور اس کے قرب کی خواہش میں پرندوں کی طرح خود کو آزاد چاہتا ہے۔ شاعر کو اس باغ میں پرندوں کی طرح آزادی چاہیے۔ ثروت خود کہتے ہیں                                                                  

؎            کام ہی کیا ہے ترے زمزمہ پردازوں کو

باغ میں مدحتِ شمشاد کیا کرتے ہیں

            محمد سلیم الرحمٰن ایک ایسے شاعر، افسانہ نگار، مترجم، مدیر اور ادیب ہیں کہ جنھوں نے ان ادبی میدانوں میں اپنی قابلیت اور مسلسل محنت کے ذریعے اردو ادب کے دامن میں بہت سے مشکل اور نادر کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ اپنی زندگی کو ادب کے لیے وقف کردینے کی ایسی مثالیں شاذ ہیں۔ نثرنظم کے حوالے سے جہاں احمد ہمیش، مبارک احمد، قمر جمیل اور دوسرے اصحاب کا ذکر آتا ہے وہیں کچھ لوگ اس خیال کے حامی بھی ہیں کہ اس صنف کے اردو میں اولین شاعروں میں سے ایک محمد سلیم الرحمٰن بھی ہیں جن کی طرف اولیت کو منسوب کیا جا سکتا ہے۔

            ابرار احمد کا عبد الرشید کا انٹرویو کرتے ہوئے اس حوالے سے سوال کا یہ حصہ قابلِ توجہ ہے۔

کہنے والے کہتے ہیں جن میں میں (ابرار احمد) بھی شامل ہوں کہ نثری نظم کا آغاز دراصل محمد سلیم الرحمن نے کیا اور جو اس حوالے سے ہمیشہ سے خاموش رہے ہیں۔”

            یہی سوال جب راقم نے محمد سلیم الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے دوران میں کیا تو علی گڑھ کے پڑھے ہوئے اس وضع دار شخص کا جواب ایک فقرے میں ہی کئی پہلو لیے ہوئے تھا کہ”ادب میں اولیت کا دعویٰ کرناویسے ہی بہت عجیب اور نامناسب سا ہوتا ہے۔”دعوے سے بچنے اور اپنے کام  اور منزل کی طرف رکھنے کی ایسی مثالیں اور کہاں ملیں گی۔لاہور میں منیر نیازی،محمد سلیم الرحمن اور صلاح الدین محمود ایسے لوگ تھے جن کے اثرات ثروت کی شاعری میں کثرت سے ملتے ہیں۔ ان تینوں شاعروں کی نہ صرف شاعری بلکہ شخصیت سے بھی ثروت حسین نے گہرا اثر قبول کیا۔محمد سلیم الرحمن سے ثروت نے خاموشی کو اپنایا اگرچہ ثروت اپنی نثری تحریروں میں انتہائی شوخ اور تعلقاتِ عامہ کے فن سے واقف لگتے ہیں لیکن ان لوگوں سے اس نے خاموشی سے بغیرکوئی دعویٰ کیے اپنا کام کیے جانا اپنایا۔

            ثروت حسین اور محمد سلیم الرحمٰن کے اس شعری اور قلبی تعلق کی گہرائی کو واضح کرتے ہوئے سہیل احمد خاں نے  ”آدھے سیارے پر“ کے دیباچے میں بھی اور ثروت کی موت کے بعد ان کی دوسری کتاب پر مضمون میں بھی اس حوالے سے لکھا ہے۔سہیل احمد خاں رقم طراز ہیں:

ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ”سویرا“کے ایک شمارے میں محمد سلیم الرحمن  کی سترہ نظمیں شائع ہوئی تھیں۔ ان نظموں کا انداز معاصر رجحانات سے الگ تھا۔ ان میں کسی تخیلاتی دنیا کی تصویریں نہیں تھیں لیکن مختلف مناظر پر اس زاویے سے روشنیاں یا سائے پھینکے گئے تھے کہ معمول کی چیزیں کچھ غیر معمولی دکھائی دیتی تھیں۔ ان نظموں کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد ”نصرت“ میں کراچی کی ادبی سرگرمیوں کی رپورٹ لکھنے والے کسی ادیب نے خبر دی کہ کراچی کے نوجوان شاعر ثروت حسین کو  ”سلیم الرحمانیہ“ہو گیا ہے۔ دراصل سلیم کی نظموں نے ثروت کے اندر خواب اور حقیقت کی سرحدوں کو مدغم کرتے ہوئے تخیل کو ادبی اظہار کی ایک راہ دکھائی۔”                                      

            محمد سلیم الرحمن کے حوالے سے آنے و الے اثرات ایک خا ص فضا کے حامل ہیں۔ اس میں رات اور شام کے تلازمات ہیں اور یہ شام مضافات کی شام ہے لیکن اس میں فرق وہاں آ کے پیدا ہوتا ہے جب اس منظر اور شام کی اداسی کا حصہ ثروت حسین خود کو بناتے ہیں اور یہ تما م مناظر ان کی آنکھ سے دیکھے ہوئے لگتے ہیں۔ سفر کے دوران میں بستیوں اور ویرانوں پر اترتی ہوئی شام اور ا س میں ایک ایک کرکے جلنے والی لالٹینیں، مدھم سے بتدریج روشن ہوتے ہوئے ستارے اور ایسے میں گھروں کو لوٹتے ہوئے کسان او ر چوپائے اور مٹی اور گار ے سے بنتے ہوئے راستے اور اس پر گھاؤ بناتی ہوئی بیل گاڑیوں کے پہیے۔ یہ فضا محمد سلیم الرحمن کے اثرات سے ثروت کے یہاں آتی ہے اورثروت اس میں پنجاب اور سندھ کے دیہاتی اور مضافاتی علاقوں کی تہذیب اور جیتے جاگتے لوگ لے آتے ہیں جبکہ سلیم صاحب کے یہاں یہ سب تنہائی اور اکلاپے کی اداسی میں لپٹا ہوا آتا ہے۔ ثرو ت کو سلیم صاحب سے ایک قلبی احترام بھی محسوس ہوتا تھا۔ محمد ریاض کو سویرا کے لئے تخلیقات بھیج کر وہ انھیں سلیم صاحب کودکھانے کا بھی کہہ دیتے تھے کہ پہلے استادِ محترم کو دکھا دینا۔

میں اپنے استھان پر تھا۔ مکاشفے، نظمیں، غزلیں، حکایات، رنگوں اور لفظوں کا ایک سیل ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے لکھنا بھی مشکل ہے۔کوئی کاتب دستیاب ہوجاتا ہے تو کچھ کام ہوجاتاہے۔ کچھ چیزیں بھیج رہا ہوں۔ پہلے استاد (محمد سلیم الرحمن) کو دکھا دینا۔ حکایت اگرٹھیک ہے تو سہیل احمدکو محراب لے لیے دے دینا۔ ناول پر ابھی بہت کام باقی ہے۔ ذرا کہانیوں اور حکایتوں سے وارم اپ ہولوں۔

            ثروت حسین کا یہ خط ان کے شعر ی وفور کی خبر بھی دے رہا ہے اور اپنے لئے تمام جھگڑوں سے دو ر خاموشی سے چن لیے جانے والے دوستوں کی خبر بھی دیتا ہے۔اسی طرح اپنی ثروت حسین ،ریاض احمد کے نام اپنی پہلی کتاب ” آدھے سیارے پر” کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط میں شاعری کے حوالے سے سلیم صاحب کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

1۔”پچھلی مرتبہ جو غزل اور نظمیں بھیجی تھیں وہ محمد سلیم الرحمن کو دکھا کر کتاب میں شامل کرلو۔”

2۔”کتاب کس مرحلے میں ہے۔ سہیل احمد کا پیش لفظ پڑھواؤ۔ اگر فلیپ (محمد سلیم الرحمن) ہو گیا ہو تو وہ بھی۔”

3۔ریاض زندگی میں مجھے کسی دن اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی آج یہ پیکٹ پا کر، بیوی کی آنکھیں خوشی سے بھر آئیں، بچے مٹھائی کا مطالبہ کرنے لگے۔ جانو کتنا خون بڑھ گیا ہے میرا، کتنی اجلی اجلائی، شفاف کتاب۔ اب میں بھی ایک غیر شخص کی صورت کتاب کا مطالعہ کر سکتا ہوں۔ سہیل احمد اور محمد سلیم الرحمن کی تحریریں محبت اور شفقت سے بھری ہوئی ہیں۔ تاخیر بلا وجہ نہ تھی کتاب بہت خوب صورت چھپی ہے۔ میں نے جب کتاب کا مسودہ ترتیب دیا تھا تو نیچے قوسین کا مونو گرام بھی بنا دیا تھا یوں اس کتاب کا مقدر بہت پہلے سے طے ہوچکا تھا۔ کتاب میں کئی چیزیں ایسی ملیں جنھیں میں بھول بیٹھا تھا، انھیں پڑھ کر نیا لطف آیا۔                

            ثروت حسین  دو بار لاہور آئے اور دونوں مرتبہ سلیم صاحب سے ملاقات بھی کی اور انھیں اپنا کلام بھی پیش کیا جس میں غزلیں اور نظمیں دونوں شامل تھیں۔ ان غزلوں نظموں کو بہت اچھے خط میں لکھا گیا ہے جس کا عکس سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر برادرم محمود الحسن سے شایع کیا ۔ سلیم الرحمٰن صاحب نے ثروت کا یہ کلام بہت سنبھال سنبھال کے رکھا ۔کلیات کی اشاعت کے موقع پر کچھ غزلیں اور حکایتیں سلیم صاحب نے اپنی علالت اور ضعف کے باوجود ڈھونڈ کے جناب اجمل کمال کو ارسال کیں  اس کے باوجود کچھ خطوط اور “سویرا” اور “محراب” کے لیے بھیجا گیا کلام اور حکایتیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو ابھی  کسی کتاب کا حصہ نہ بن سکی ہوں جیسا کہ محمود الحسن کی پوسٹ میں شامل ایک غزل ” اڑتے چھینٹے بھگو چکے ہیں سارے پر” بھی ہے۔محمد سلیم الرحمٰن صاحب نے ثروت حسین کی شخصیت اور شاعری پر ” دی نیوز” کی 31 مارچ 2019ء کی اشاعت میں ایک انگریزی مضمون بھی لکھا جو اتنا ہی خوب صورت اور جامع ہے جتنا کہ محض چند سطروں پر محدود ” آدھے سیارے پر” کا دیباچہ ہے جسے ہم اردو نثر کی اعلیٰ مثال کے طور بھی فخر سے پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کیسے فخر کی بات ہے کہ ہم میں ابھی ایسے لو گ موجود ہیں جو خود سے عمر میں چھوٹے اور شاعری میں متاثر ہونے والے حساس شعرا کا کلام بھی نہ صرف اپنے بچوں کی طرح سنبھال کے رکھتے ہیں بلکہ اس امانت کو  اشاعت کے مراحل سے بھی گزار نے کا مکمل اہتمام کرتے ہیں اور دہائیاں گزرنے کے باوجودبھی شاعرکو زمین چھوڑ کے نہیں جانے دیتے اور اس کی شخصیت اور شاعری کے آفاقی پہلوؤں کو ادبی مباحث کا حصہ بنائے رکھتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ ہم احسان نا شناس لوگ ہیں ۔۔۔ ہاں اگر ہیں تو ایسے بزرگوں کے حوالے سے جو اپنے بعد کی نسلوں کو تو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیتے لیکن اپنے بارے میں  ادبی دنیا کی مسلسل خاموشی کو  پرِ کاہ بھی نہیں جانتے۔