(محمد سلیم الرحمن کے لیے)

یہ تحریر 753 مرتبہ دیکھی گئی

آ کسی دن اپنے آشفتہ سروں کے درمیاں
اپنے بیماروں میں اپنے دل زدوں کے درمیاں

آ کبھی کچھ دیر اپنے سوختہ جانوں کے بیچ
دیکھ آ کر کیا گزرتی ہے دلوں کے درمیاں

پوچھ آ کے ایک دن سینہ فگاروں کا بھی حال
کس طرح کٹتے ہیں روز و شب غموں کے درمیاں

وہ کہ اک آئینہ رو شیشہ جبیں سیمیں بدن
وہ کہ اک شیریں سخن شیریں لبوں کے درمیاں

میں نے دیکھا تھا اسے لپٹا حریرِ سبز میں
جیسے عکسِ ماہِ کامل پانیوں کے درمیاں

چاندنی پھیلی تھی ہر جانب جمالِ یار کی
صورتوں میں آئینوں میں پیکروں کے درمیاں

کیا کہا تھا اس نے جانے میں نے تو دیکھا فقط
بات کی کلیاں چٹکتی تھیں لبوں کے درمیاں

مہرباں ہو کے کبھی اک بار چھونے دے مجھے
اس گلِ یاقوت کو دو عارضوں کے درمیاں

دیکھنا چاہا اسے تو دیکھنا مشکل ہوا
دھوپ تھی پھیلی ہوئی دو کاکلوں کے درمیاں

دیدنی تھی اس گلِ نوخیز کی وارفتگی
صبحِ فصلِ گل میں پہلی بارشوں کے درمیاں

اس کے ماتھے کے افق پر چاند تھا ٹھیرا ہوا
اور شب سوئی تھی اس کے گیسوؤں کے درمیاں

ایک صبحِ منتظر تھی وسعتِ افلاک میں
اور وصلِ آب و گل تھا ساحلوں کے درمیاں

اس کے ہونے کے نشاں ظاہر تھے سارے باغ میں
آیتیں لکھی تھیں پھولوں پتیوں کے درمیاں

دن گزر جاتا ہے میرا کاہشِ تعبیر میں
رات بھر رہتا ہوں اس کی خواہشوں کے درمیاں

ایک دن جاؤں گا میں سیرِ جہاں کے واسطے
خوبصورت مسکنوں اور بستیوں کے درمیاں

صبح کرنی ہے مجھے باغِ بہشتِ گل کے بیچ
شام کرنی ہے سہانے جنگلوں کے درمیاں

ڈھونڈنا ہے جلوہ ساماں نازنینوں کا پتا
گم شدہ قریوں پرانے مسکنوں کے درمیاں

کچھ رموزِ بے بدل کا پھر لگانا ہے سراغ
مدتوں سے بھولے بسرے زاویوں کے درمیاں

پوچھنی ہیں کچھ گذشتہ حکمتیں سیمرغ سے
جاننے ہیں بھید کوئی طائروں کے درمیاں

بارشوں کے گیت گانے ہیں مجھے کوئل کے ساتھ
اجنبی باغوں کو جاتے راستوں کے درمیاں

ڈھونڈنا ہے کچھ پرانے مدفنوں کی خاک میں
دیکھنا ہے کچھ شکستہ مقبروں کے درمیاں

بوجھنے ہیں کوئی پوشیدہ طلسموں کے نشاں
پوچھنے ہیں بھید جا کے ساحروں کے درمیاں

دیکھنے ہیں خاک ہوتی خواب گاہوں کے نقوش
وقت کی گردش میں گم عشرت گہوں کے درمیاں

سیکھنا ہے راگ اک بادِ نسیمِ صبح سے
اور اسے گانا ہے اپنی خلوتوں کے درمیاں

جا کے رہنا ہے مجھے کچھ دن پری زادوں کے بیچ
بھولی بسری گل بداماں وادیوں کے درمیاں

دور جانا ہے مجھے کچھ اجنبی لوگوں کے ساتھ
گمشدہ سمتوں کو جاتے قافلوں کے درمیاں

یاد کرنا ہے کسی دن اک گلِ نوخیز کو
برگ و گل کے بیچ اڑتی تتلیوں کے درمیاں

جاگنا ہے ایک دن خواب و خبر کے آس پاس
دیکھنا ہے اس کو اپنے واہموں کے درمیاں

پھر مجھے آباد کرنے ہیں پرانے مے کدے
گردشِ ایام میں گم بستیوں کے درمیاں

ایک دن آرام کرنا ہے لبِ دریا مجھے
دور تک پھیلی ہوئی خاموشیوں کے درمیاں

ڈھونڈنے جانا ہے اک دن پھر کوئی پیرِ مغاں
خرقہ پوشوں، شیشہ سازوں، مے کشوں کے درمیاں

رقص کرنا ہے کسی دن کوچہء دلدار میں
ڈھونڈنا ہے اس کو خالی چلمنوں کے درمیاں

چھوڑ آنا ہے کسی دن دیدہء بیدار کو
اس کے شیشہ گھر کے خالی طاقچوں کے درمیاں

دیکھنا ہے ایک شب منظر طلوعِ ماہ کا
اس کی پیشانی میں دونوں ابرووں کے درمیاں

ایک دن پرواز کرنی ہے فضائے نیل میں
دیکھنا ہے اس زمیں کو بادلوں کے درمیاں

ایک پارینہ حکایت کا لگانا ہے سراغ
طاقِ نسیاں پر دھرے کچھ کاغذوں کے درمیاں

رات کرنی ہے کوئی اس حسنِ فتنہ جو کے ساتھ
نیم روشن شہ نشینوں، گنبدوں کے درمیاں

شعر کہنے ہیں مجھے کچھ اس حسیں کی یاد میں
دھند میں لپٹے دریچوں اور دروں کے درمیاں

بھول جانا ہے مجھے اک شکوہء بے سود کو
لوٹ جانا ہے پرانے دوستوں کے درمیاں

یاد کرنا ہے کبھی اک نامکمل بات کو
جو ادھوری رہ گئی سرگوشیوں کے درمیاں

ڈھونڈنی ہے ایک بھولی شے در و دیوار میں
دیکھنا ہے کچھ خیالی صورتوں کے درمیاں

جاننا ہے ایک حرفِ بے سخن کے راز کو
آنکھ سے اوجھل کہیں حیرت کدوں کے درمیاں

طیش میں رہتا ہوں شب کو جیسے اپنے آپ سے
دن گزر جاتا ہے میرا رنجشوں کے درمیاں

وہ جو مجھ سے ہو چکا ہے اس کا رہتا ہے ملال
پھر الجھ جاتا ہوں تازہ کاوشوں کے درمیاں

میں نے دیکھا اس حسیں کو بارشوں میں بھیگتے
شعلہء پیچاں فروزاں، پانیوں کے درمیاں

آ کبھی پھر سے کہیں وہمِ نظر کے آس پاس
آ کبھی پھر سے مری تنہائیوں کے درمیاں

آ کبھی پھر سے سرِ محفل سخن آغاز کر
آ کبھی پھر سے عیاں ہو جلوتوں کے درمیاں

آ کبھی پھر جلوہ فرما ہو رگِ جاں کے قریب
آ کبھی پھر سے لہو کی گردشوں کے درمیاں

آ کبھی پھر سے تجلی کر فصیلِ چشم پر
آ کبھی پھر سے نگاہوں کی حدوں کے درمیاں

آ کبھی پھر سے غرورِ حشر سامانی کے ساتھ
آ کبھی پھر سے دلوں کے آئنوں کے درمیاں

آ کبھی پھر سے بہ اندازِ شکوہِ دلبری
آ کبھی پھر سے گریزاں ساعتوں کے درمیاں

آ کبھی پھر سے اتر رنگِ گل و لالہ کے بیچ
آ کبھی ظاہر ہو پھر سے موسموں کے درمیاں

آ کبھی پھر سے عیاں ہو مطلعِ اسرار پر
آ کبھی پھر سے طلسمی زائچوں کے درمیاں

مجھ سے بڑھ کر جانتا ہے کون اس کی دلبری
میں نے تو دیکھا ہے اس کو خلوتوں کے درمیاں

ہانپتا ہے جسم دن بھر اپنے شر کے بوجھ سے
شب گزر جاتی ہے ارضی خواہشوں کے درمیاں

کروٹیں لیتے گزرتی ہے بدن سوتا نہیں
جاگتا ہوں کیسی کیسی رغبتوں کے درمیاں

دیکھتا رہتا ہوں کیا کچھ اس کے خدوخال میں
دائروں، قوسوں، خطوں، گولائیوں کے درمیاں

بھول جاتا ہوں میں رستہ گھاٹیوں کے آس پاس
ڈوب جاتا ہوں کہیں گہرائیوں کے درمیاں

بھیگ جاتا ہوں پسینوں میں کبھی کچھ سوچ کر
ٹوٹنے لگتا ہوں اپنی شدّتوں کے درمیاں

کوئی چنگاری سی اڑتی ہے رگِ جاں میں کہیں
آپ جل بجھتا ہوں اپنی آتشوں کے درمیاں

ایک طوفاں سا امنڈ آتا ہے برق و باد کا
بجلیاں سی کوندتی ہیں بادلوں کے درمیاں

دیدنی ہے یہ چمن آرائیِ ارضِ بدن
کیا ہی گل بوٹے ہیں اس کی وادیوں کے درمیاں

پھول، پتے، وادیاں، جھرنے، سمندر، کوہسار
کیا نہیں اس سرزمیں کی وسعتوں کے درمیاں

جاگنے لگتی ہے جیسے اک پرانی تشنگی
کسمساتی ہے کوئی وحشت نسوں کے درمیاں

سوچتے رہنا اسے اور سوچنا اس کو بہت
مشکلوں کے بیچ، تن آسانیوں کے درمیاں

کوئی آسائش نہیں جو اس کی یادوں میں نہ ہو
میں بڑے آرام سے ہوں فرقتوں کے درمیاں

رات دن کے ساتھ نے یوں غم سے ہم رشتہ کیا
دم گھٹا جاتا ہے جیسے راحتوں کے درمیاں

اس کا چہرہ، اس کے گیسو، اس کی آنکھیں، اس کے لب
کتنے موضوعِ سخن ہیں شاعروں کے درمیاں

اک صدا مجھ کو بلاتی ہے بدن کے پار سے
ایک چہرہ منتظر ہے چلمنوں کے درمیاں

وہ مہِ کاملؐ سریر آراے بزمِ دو جہاں
حسن کے چرچے ہیں جس کے قدسیوں کے درمیاں

سوچتا ہوں اب کسی جا اور چلنا چاہیے
شور بڑھتا جا رہا ہے بستیوں کے درمیاں

یہ غزل ہے اعتبارِ عرضِ فن کے واسطے
پیش ہے اب شعر کے کاریگروں کے درمیاں

شب کو دیکھا خواب میں اس پیکرِ گل پوش کو
اک ردائے گل کے اوپر نکہتوں کے درمیاں

کوئی اندیشہ ضرور اس شہر کے لوگوں میں ہے
کچھ جبینوں پر رقم ہے کچھ دلوں کے درمیاں

یہ نہ ہو اور وہ نہ ہو ایسے نہ ہو ویسے نہ ہو
ہے گزر اوقات میری واہموں کے درمیاں

ایک دزدیدہ نظر پھر اک تبسم زیرِ لب
کچھ کہو پھر چشم و لب کی جنبشوں کے درمیاں

منتظر رہنا ہے کب آئے ترے قدموں کی چاپ
کب تُو لوٹے آتے جاتے موسموں کے درمیاں

دیکھتے رہنا ہے ان رستوں میں اڑتی دھول کو
ٹھیر جانا ہے انھیں ویرانیوں کے درمیاں

بھول جانا ہے کسی دن راستہ رستوں کے بیچ
بیٹھ جانا ہے کہیں خاموشیوں کے درمیاں

بوجھ لینا ہے کسی دن دیکھ لینا ہے کبھی
بھید اک شاخِ بدن کی لرزشوں کے درمیاں

پھر نگاہِ ناز سے آغاز ہو مشقِ ستم
دیکھ پھر اک بار تیکھی چتونوں کے درمیاں

وہ حریمِ عشق کا محرم سخن کی آبرو
میرؔ سا شاعر نہ ہو گا شاعروں کے درمیاں

اس کا گھر بھی ہے یہیں اس کوچہء گل پوش میں
کاش اک اپنا بھی گھر ہو ان گھروں کے درمیاں

پھر گیاہِ سبز پیدا ہو زمینِ شور میں
آ حدودِ جسم کی ویرانیوں کے درمیاں

خاک ہوتا جا رہا ہے دم بدم قصرِ وجود
میں گزرتا جا رہا ہوں ساعتوں کے درمیاں

ڈھونڈتا ہوں دیر تک اک گم شدہ آواز کو
اپنے لہجے میں چھپی تنہائیوں کے درمیاں

ہم نے تو مانگا نہ چاہا کچھ تمھاری بزم میں
خوش رہے ہم بے سر و سامانیوں کے درمیاں

کیا کروں میں دیدہء بیدار کی چارہ گری
دیکھتے ہیں خواب شب بیداریوں کے درمیاں

کون دیتا ہے سیہ چشموں کو نازِ دلبری
کون دہکاتا ہے آتش عارضوں کے درمیاں

چومتا ہے کون پیشانی مری اندوہ میں
حوصلہ دیتا ہے مجھ کو مشکلوں کے درمیاں

کون دیتا ہے حلاوت گفتگوئے یار کو
کون کرتا ہے تموّج چھاتیوں کے درمیاں

کون کرتا ہے حنا بندی عروسِ لالہ کی
کس کی خوشبوئے بدن ہے گلشنوں کے درمیاں

کون دیتا ہے حرارت آتشِ یاقوت کو
کون رکھتا ہے برودت پانیوں کے درمیاں

کون چھپ کر جھانکتا ہے چشمِ حیراں سے پرے
کون عکس انداز ہے پیشانیوں کے درمیاں

کون دیتا ہے غرورِ دلبری دلدار کو
کون پردہ پوش ہے خود وادیوں کے درمیاں

کون کر دیتا ہے آئینہ جبینِ یار کو
رنگ بھر دیتا ہے خالی منظروں کے درمیاں

کون دیتا ہے نسیمِ صبح گاہی کو خرام
کون بھرتا ہے اڑانیں جنگلوں کے درمیاں

کون رہتا ہے پسِ دیوارِ زندانِ وجود
کون پردہ پوش ہے زندانیوں کے درمیاں

کون بھر دیتا ہے لفظوں میں معانی کا طلسم
کون کرتا ہے تکلّم منطقوں کے درمیاں

کون دزدیدہ نگاہوں کو سکھاتا ہے کلام
کون کرتا ہے تبسّم چشمکوں کے درمیاں

کون دیتا ہے خمارِ خمر چشمِ یار کو
کون بھر دیتا ہے مے ان ساغروں کے درمیاں

کون رہتا ہے حریمِ عشق میں آتش بہ جاں
سوختہ دل سوختہ سامانیوں کے درمیاں

کون دیتا ہے لبِ لرزاں کو تعلیمِ سکوت
کون دیتا ہے صدا خاموشیوں کے درمیاں

حسن بن کر بیٹھتا ہے خلوتِ معشوق میں
عشق بن کر دیکھتا ہے جلوتوں کے درمیاں

شعلہء پیچاں کبھی ہے سینہء عشّاق میں
دل گرفتہ ہے کبھی وہ دل زدوں کے درمیاں

بے قراری ہے یہ کیسی سینہء سیماب میں
مضطرب ہے کون اس کی لرزشوں کے درمیاں

چھو ہی لینا ہے کسی دن، چوم لینا ہے کبھی
وہ لب و عارض کبھی سرشاریوں کے درمیاں

سب جگہ پھیلی ہوئی ہے اس کی خوشبوئے وجود
بام و در میں، آنگنوں میں، گل کدوں کے درمیاں

شعر و فن کے شعبدے سارے مجھے معلوم ہیں
میں بھی بیٹھا ہوں بہت دانشوروں کے درمیاں

وہ سبھی شیشہ بدن آنکھوں سے اوجھل ہو گئے
ڈھونڈتا ہوں اب انھیں پرچھائیوں کے درمیاں

وقت گزرا جا رہا ہے عرضِ صبح و شام میں
نقش مٹتے جا رہے ہیں گردشوں کے درمیاں

محفلیں گم ہو رہی ہیں کاہشِ بے سود میں
یار اٹھتے جا رہے ہیں محفلوں کے درمیاں

علم گھٹتا جا رہا ہے کثرتِ تعلیم میں
اک زوالِ آگہی ہے مدرسوں کے درمیاں

کون سیتا ہے مرا چاکِ گریباں دیکھیے
دیر سے ہوں منتظر بخیہ گروں کے درمیاں

اس زمیں پر بے دیار و بے وطن کوئی نہ ہو
امتیں گم ہو گئی ہیں ہجرتوں کے درمیاں

خشک پتّوں کی صدا ہے یا ہوا کا شور ہے
اور اب شاید نہیں کچھ راستوں کے درمیاں

سارے چہرے ساری یادیں نذرِ نسیاں ہو گئیں
کچھ نہیں دیمک زدہ الماریوں کے درمیاں

جس قدر دیکھا زیادہ رازِ سر بستہ رہا
طے کیا سارا سفر حیرانیوں کے درمیاں

سر پہ ہے بارِ گراں جیسے کوئی قرضِ قدیم
ایک رنجِ رائگاں بیزاریوں کے درمیاں

کون بولا تھا یہاں جو ان سنا ہی رہ گیا
اک صدا ٹھیری ہوئی ہے گنبدوں کے درمیاں

ایسے لگتا ہے سبھی سمتیں کہیں گم ہو گئیں
چند سایے سے کھڑے ہیں راستوں کے درمیاں

کہنگی چھائی ہوئی ہے بام و در کے پیش و پس
عبرتیں پھیلی ہیں خستہ حالیوں کے درمیاں

سر بہ زانو سایے ہیں کچھ شہ نشینوں کے قریب
کوئی سرگوشی رکی ہے سسکیوں کے درمیاں

سرسراہٹ سی ہے کوئی ریشمی ملبوس کی
آہٹیں پھیلی ہوئی ہیں آنگنوں کے درمیاں

گونجتی ہیں ان کہی باتیں قریب و دور سے
ادھ جلی شمعیں پڑی ہیں طاقچوں کے درمیاں

مرمریں جسموں کی حدّت ہے شبستانوں کے بیچ
گرم سانسیں منجمد ہیں خلوتوں کے درمیاں

کچھ سراسیمہ سے پیکر ہیں در و دیوار پر
نیم وا آنکھیں رکی ہیں کھڑکیوں کے درمیاں

ہیچ ہیں سب جاہ و حشمت، داوری، نام آوری
عظمتیں سوئی پڑی ہیں مقبروں کے درمیاں

ڈھل گئی شب، ختم ہونے کو ہے اب بزمِ نشاط
تھوڑی سی اب رہ گئی ہے ساغروں کے درمیاں