محمد سلیم الرحمن کی نظمیں

یہ تحریر 2967 مرتبہ دیکھی گئی

نظمیں دوبارہ چھپ گئی۔ پہلی اور دوسری اشاعت میں ۱۷ سال کا فاصلہ ہے جو ختم ہوا۔ ۲۰۰۲ سے ۲۰۱۹ تک اس وقفے میں ۷۰نظمیں مزید پڑھنے کو ملیں۔ اب اس مجموعے میں کُل منظومات کی تعداد ۲۰۵ ہے۔ ایک جائزے میں ہر نظم کے بارے میں بات نہیں کی جاسکتی۔ ایک طرف یہ مشکل ہے اور دوسری سمت یہ دقت کہ اس مجموعے کی ساری نظمیں اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ان کے بارے میں الگ الگ بات کی جائے۔

یہ خیال کیوں پیدا ہوا۔ اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ محمد سلیم الرحمن نے نظم کی شاعری کی سوا سو سالہ تاریخ سے ہیئت اور خیال کی سطح پر مختلف کام کیا ہے۔ ان نظموں کی شکلیں بالکل نئی ہیں۔ یہ نیا پن کیسے آیا۔ ایک طرف روایت کا شعور اور دوسری طرف اپنی تخلیقی طاقت پر اعتماد۔ بے شبہ روایت ہی وہ آئینہ ہے جس کی مدد سے کجی اور کمی کو سمجھا جاسکتا ہے پھر محمد سلیم الرحمن کی قبیل کے شاعر خود کو شاعری کی ایک روایت تک محدود نہیں رکھتے۔ نظم کی صنف میں دنیا بھر میں لکھی جانے والی شاعری ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شاعری سے وہ قاری زیادہ حظ اُٹھا سکتا ہے جس کے سامنے رلکے، نیرودا، کوافی، پیوباروخا، ییٹس، راں بود، بودلیئر، میلارمے، پشکن، ویلس سٹیونز، ایلیٹ، کولرج، کیٹس، بائرن، شیلے کی شاعری ہو۔ اس بات کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان نظموں کو وہی پڑھے جو درج بالا شاعروں کی شاعری پہلے پڑھ چکا ہو۔ مقصد ان نظموں میں انفرادیت کی طرف اشارہ ہے۔

یہاں تک ہیئت کی بات تھی۔ دوسری صورت خیال کی ہے۔ ان نظموں میں خیال کا مرکز ایک ایسے انسان کا باطن ہے جس کا بڑا مقصد اُس خوشی کی تلاش ہے جو جانے کہاں گم ہوگئی۔ شاعر اُسے تلاش کرتا پھررہا ہے۔ دنیا کی ہر وہ چیز جس سے انسان کو راحت مل سکتی ہے شاعر کی دوست ہے اور ہر وہ جذبہ جس میں انسانیت کے لیے شر کا پہلو ہے شاعر کا دشمن ہے۔ وہ

ظلم کی کھیتی میں کانٹوں کے سوا کب کچھ اُگا؛

ظلم جو بھی بوئے گا؛

دانے دانے کے لیے ترسے گا وہ۔

—————-

چاقوؤں کی جس شفق میں

تم کسی چقماق کی مانند چٹخے

وہ تمھاری آستینوں اور تمھاری کھیتیوں میں

آگ بن کر لہلہائی۔

—————-

بے کسوں کے گُل یہاں چودہ طبق ہیں۔

جتنے بھی بدمست ہیں سب ہم ورق ہیں۔

تفرقے ہیں اور دسیسہ کاریاں ہیں۔

پینگ لینے کے لیے بھی اپنی اپنی باریاں ہیں۔

لوریاں دینے کو لیڈر بھپکیاں ہیں۔

—————-

یہ اور اس نوعیت کی کئی اور نظموں میں شاعر کا قلم ایک مہذب احتجاج کی جگہ لیتا نظر آتا ہے۔ اس احتجاج کی شکل انفرادی ہر گز نہیں۔ جہاں، جس نے انسان کے راستے میں کانٹے بوئے شاعر اُس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوے اپنا احتجاج اپنی نظموں کی صورت سامنے لاتا نظر آتا ہے۔ آخر پِس جانے والوں، مظلوموں، محروموں کو شاعروں کے قلم کا سہارا بھی نہیں ملے گا تو پھر ان کی زندگیوں میں ٹھنڈی ہوا کدھر سے آئے گی۔

یہ نظمیں اپنے متن میں کچھ ایسا رکھتی ہیں جو جینے میں مدد دیتا ہے۔ دنیا اچھی اچھی لگنا شروع ہوجاتی ہے۔ ان نظموں میں توکل اور صبر ہے۔ سہارے اور آسرے کی کیفیت ہے۔ یہ دوسروں کے ساتھ ہم گذاری کا پیغام لیے ہوے ہیں۔ کیا ہوا تم اکیلے ہو۔ کیا ہوا تم دکھی ہو۔ کیا ہوا تم پردیسی ہو۔ دیکھو دنیا والوں نے تمھاری قدر نہیں جانی، نہ سہی۔ خدا ہے ناں، فطرت تو یکساں ہے۔ بارش، بادل، ہوائیں، رات، دن سب کے لیے یکساں ہے۔

اتنی محبت کرنے والے پھر نہ ملیں گے۔

چھوڑ یہ سارے اپنے دھندے، دُکھڑے، حیلے۔

ان کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کے دو دن جی لے۔

رُوکھی سُوکھی کھا، پر نہ بَن روکھا سُوکھا۔

ساہیں سنگی، سوہنے کوہجے، گورے کالے۔

چاہے جا، پھر کم نہیں ہوں گے چاہنے والے۔

نظمیں کی دنیا میں کشادگی ہے۔ انسان کا احترام ہے۔ فطرت سے محبت ہے ظالم سے برأت کا اظہار ہے۔

زندگی میں انسان کو درپیش ہر کیفیت اس کا موضوع ہے۔ نظمیں میں محبت ایک مقدس جذبے کی طرح رواں ہے۔ اس عمل میں شاعر ہے اور اس کے ساتھ محبوب کی یاد ہے جسے جگہ جگہ تلاش کررہا ہے۔ کہیں دودھیا چکنے گلاس پر اُنگلیوں کو نشانوں میں اور کہیں وائلن کو دیکھ کر۔

تم نے مجھے کس سے چھوکر نیا کیا ہے

اپنے کسی اثر سے ایسا بنا لیا ہے

مجھ کو بھی آچلا ہے اپنے تئیں لٹانا

اور روشنی دکھانا

یہ نظمیں لُٹے ہوؤں کی روشنی ہیں جو راتوں میں جاگتے ہیں۔ جو خیال کی پرورش کرتے ہیں۔ جو کسی چیز کی تخلیق کو بے مقصد نہیں جانتے۔ جو مکھوٹوں اور بہروپوں سے نفرت کرتے ہیں بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی کی بے مُہار ترقی کو سمجھنا ہو تو اس متن سے بہتر آسرا کوئی اور کم ہی ہوگا۔ انسانی تنہائی اس متن کا بڑا موضوع ہے۔ ابلاغ کے ذرائع جتنے مرضی آجائیں انسان کے باطن کی تنہائی دور نہیں کرسکتے۔ اس کو دور کرنے کے لیے ایک شاعر کا دل چاہیے جو چیونٹی کو دوست رکھتا ہے۔ جو کسی آن غافل نہیں۔ کافر کی جہاں اور نشانیاں ہیں ایک بڑی نشانی ہے یہ بھی ہے کہ ”جو دم غافل سو دم کافر“ یہاں ایک ترانہ بھی ہے۔ جس میں حوصلہ ہی حوصلہ ہے۔ اُمید ہی اُمید ہے۔ کل کی کلفت کو ایک طرف رکھ کر آج میں جینے کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔

ہاتھ ہمارے تارے، چاند اور آنے والی کل۔

گزرے دن کا بوجھ پرے سُٹ، ساتھ ہمارے چل

آنکھ ملا کے، ہاتھ ہلا کے، قدم بڑھا کے چل

ساتھ ہمارے چل

سارا انتشار ہی ساتھ نہ چلنے کا ہے۔ شاعر دنیا کو ایسا دیکھنا چاہتا ہے جیسا خوبصورت اُس کا باطن ہے۔ سر سبز، ہرا بھرا، دُکھ بانٹتا ہوا، ساتھ چلتا ہوا۔ نظمیں ایک خوبصورت دنیا کا خواب ہے جو نہ جانے کتنی راتوں کی نیند نچوڑ کر دیکھا گیا ہے۔ آیئے اس خواب میں شامل ہوجایئے۔ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی راحت ملے گی ضرور۔ نظمیں قوسین نے چھاپی ہے جو ریڈنگز پر دستیاب ہے۔

سلیم سہیل
http://auragesabz.gamecraftpro.com/%d8%b3%d9%84%db%8c%d9%85-%d8%b3%db%81%db%8c%d9%84/