مابعد جدیدیت اور ہمارا سماج

یہ تحریر 2581 مرتبہ دیکھی گئی

ریاستی جبر اور اشیا کی غیر منصفانہ تقسیم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تحریکیں ہمارے سماج میں مابعد جدیدیت کی راہیں ہموار کرنے جا رہی ہیں۔۔۔اس کی مثالیں بلوچ تحریک،پشتون تحریک،سرائیکی تحریک، فیوڈل ازم کے خلاف چھوٹی سطح پر تحریکیں، پنجاب میں مزدور تحریک، کسان تحریک، وغیرہ وغیرہ ہیں۔۔۔اس سے بھی بڑی تحریک، جسے میں سمجھتا ہوں وہ ہے سوشل میڈیا پر چلائی گئی مہابیانیے کے خلاف  ہے۔۔۔اس کے ساتھ ہی مختلف سطح و جگہ پر فرد کی لبرل و سیکولر بنیادوں پر  ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ مابعد جدیدیت حقیقی معنوں میں اس سماج و ماحول میں پنپتی ہے جہاں مہابیانیے کی موت کا اعلان کر دیا جائے یا اسے مکمل تشکیک کا رجحان میسر آئے اور بعد از وہ تحریک کی شکل اختیار کر جائے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کسی بھی نظریے یا ازم کے حوالہ سے موت کا لفظ مناسب نہیں کیونکہ کسی بھی آئیڈیالوجی، نظریہ، یا ازم کی موت کبھی واقع نہیں ہوتی، اس حوالہ سے مجھے ایک مغربی دانشور کا شاندار جملہ یاد آ رہا ہے کہ ”نظریہ کی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ وہ زیرِ زمین چلا جاتا ہے۔“ اور جب بھی اس کے حق میں ماحول سازگار ہو گا تو وہ اپنی ایک نئی صورت کے ساتھ اُبھرے گا۔ میں نے مہابیانیے کے حوالہ سے موت کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کیونکہ اس کے بغیر مابعد جدیدیت حقیقی معنوں میں اپنا کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر رہتی ہے تو کیوں نا مہابیانیے کو موت کی نیند سلا دیا جائے، مابعد جدیدیت کو کسی خاص سماج و ماحول سے جوڑنا بھی اس کے ساتھ زیادتی ہے لیکن میری مراد یہاں اس حوالہ سے ”کلی“ سطح پر نہیں بلکہ ” جزوی“ سطح پر ہے۔ بین الاقوامیت کی ایک مقامیت بھی تو ہوتی ہے۔۔۔میں آئے روز سوشل میڈیا پر سیکولر و لبرل طبقہ کی تعداد میں اضافہ دیکھ رہا ہوں اور یہ اس روز مزید آگے بڑھے گا جس دن یہ درج بالا تحریکیں ریاستی جبر کے خاتمے کا اعلان کر دیں گی۔۔۔

لبرل و سیکولر طبقہ ایک خاص مہابیانیے کی جانب مسلسل تشکیک کا رجحان پیدا کر رہا ہے، لیکن ریاستی بیانیے کے مفادات اسی خاص مہابیانیے میں پوشیدہ ہیں ایک تو ریاستی بیانیہ کی یہاں طاقت موجود و قائم ہے دوسرا اس مہابیانیے کے مبلغ ریاستی بیانیے کے آلہ کار ہیں۔۔لبرل و سیکولرز ایک ہی وقت میں دونوں طبقوں سے بر سر پیکار ہیں جہاں وہ مہابیانیے کے خلاف شک کی تعلیم دے رہے ہیں وہیں وہ اسے رجحان و تحریک بننے میں حائل رکاوٹوں سے بھی نبرد آزما ہیں۔ یہ بات تو تاریخی طور پر ثابت ہے کہ وہی بیانیے مضبوط رہے ہیں جن کی جڑیں عوام میں مضبوط تھیں۔۔اس تاریخی تناظر کو دیکھا جائے تو غالب فتح تو لبرل و سیکولر طبقہ کی یقینی نظر آتی ہے۔۔۔لبرل و سیکولرز مستقل بنیادوں پر عوام کی ذہن سازی کر رہے جبکہ ان کے مقابل طبقہ اپنی آہنی طاقت کو ہتھیار بنائے ہوئے ہے اور خاص سطح تک محدود ہے، آہنی طاقت کو تاریخ مات دے چکی ہے۔۔۔