لفظ خودی -مفہوم اور توضیح

یہ تحریر 2791 مرتبہ دیکھی گئی

اقبال نے اپنی تمام تر شعری ونثری تخلیقات میں خودی کے مفہوم کو مختلف طریقوں سے واضح کیا ہے کہیں اسے ‘نقطہ’نوری’سے کہیں ‘شعور ‘ کے روشن نقطے سے کہیں ‘ پر اسرار ‘شے  سے کہیں ‘انسانی کیفیتوں  کے شیرازہ بند, سے کہیں ‘خدا کے راز ‘سے کہیں’ اسرار الٰہی’ سے کہیں’ موج ‘سے کہیں ‘گوہر’ سے کہیں’ تیغ اصیل’ سے ,کہیں ‘بحر بے کراں’ سے ,کہیں’ نورونار ‘ سے ,کہیں ‘تلوار کی دھار ‘سے, کہیں ‘بیدارئ کائنات ‘سے, کہیں ‘راز درون کائنات ‘ سے, کہیں اسے’مشت خاک میں آتش ہمہ سوز’ سے تعبیر کیا ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ  اقبال,خودی کا تعارف تو کرواتے ہیں مگر منطقی تعریف کہیں بھی نہیں کرتے.

حضرت علامہ نے  لفظ خودی کو بالتفصیل اور بالترتیب کہیں بھی بیان نہیں کیا اور منظومات میں اسرار خودی, رموز بے خودی,گلشن راز جدیداور ساقی نامہ میں اس کا ہلکا سا خاکہ پیش کیا ہے لیکن اس میں بھی لفظ خودی کی وضاحت نہیں ملتی

اقبال کے خطبات اور مراسلات کے علاوہ اسرار خودی کے مقدمہ (جو بعد کی اشاعتوں میں حذف کر دیا گیا) میں خودی کے مفہوم کے مبہم سے اشارات ملتے ہیں.اگر اس کی روشنی میں متعلقہ کڑیوں  کو جوڑا جائے تو  لفظ خودی کے مفہوم کا جو نقشہ بنتا ہے. اس کی صورت کچھ اس طرح ہو گی.

اقبال اسرار خودی کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:

“یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ جس سے تمام انسانی تخیلات وجذبات و تمنیات  مستنیز ہوتے ہیں. یہ پر اسرار شے جو فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے”

اس اقتباس کی روشنی میں ہم لفظ خودی کا مفہوم اخذ کریں گے کہ خودی کیا شے ہے

یہ وحدت وجدانی ہے یا دوسرے لفظوں میں، شعور کا روشن نقطہ ہے ۔۔۔یعنی اس جگہ وجدان اور شعور دونوں کو مترادف قرار دیا ہے ۔یعنی وجدان اور شعور دونوں ایک ہی معتبر کی دو تعبیریں ہیں ۔۔۔۔۔۔جب علامہ نے اپنی ذات میں غور کیا تو انھوں نے آپ کو  کثرت سے مرکب پایا اس کے بعد انھوں نے اس کثرت کا نقطہ ء وحدت تلاش کیا،(جیسے درخت کا نقطہ ء وحدت ،تخم یا مغز ہوتا ہے ،تو علامہ پہ یہ حقیقت منکشف ہو گئ کہ جس چیز کو انا یا من سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اسے میں اپنا نقطہ ء وحدت سمجھ سکتا ہوں ) مختصر یہ کہ انسان کی خودی ایک وحدت ہے ۔۔۔۔خودی کی اس وحدت کو وجدان سے محسوس کیا جا سکتا ہے ۔۔اور روشن نقطہ مترادف ہے نورانی کا اور اس کو انھوں نے اس شعر میں بیان کیا ہے

“نقطہ نوری کہ نام او خودی است”     اور اسی نقطے کو انھوں نے ری کنسٹرکشن میں بھی بیان کیا ۔۔۔۔۔conscoiusness is some thing single, presupposed in all mental life, and not bits of consciousness mutully reporting to one another……… ۔

شعور انسانی کا یہ نقطہ(خودی)انسان کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بندی کرتا ہے۔۔۔۔اللہ نے انسان کے اندر لا محدود صلاحیتں، بے پایاں طاقتیں اور پر اسرار کیفیتیں پیدا کر رکھی ہیں ۔۔ان صلاحیتوں,طاقتوں اور  کیفیتوں کوباہم ایک دوسرے سے پیوستہ رکھنے والی اور متحرک کرنے والی  قوت یا وحدت خودی ہے۔ ۔۔۔ ذہن انسانی میں شعور کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔یہی روشن نقطہ ہمارے احساسات، ادرکات، جذبات، تصورات، تخیلات، اور دیگر مختلف اعمال و افعال کا منبع ہے۔شعور میں ایک روشن نقطہ(نوری نقطہ )،ہوتا ہے اور یہی وہ نقطہ نوری ہے جو شعور اور اس کے تمام وظایف کو کنٹرول کرتا ہے اسی لیےکہتے ہیں کہ اس نقطہ شعور سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔”،تمام انسانی تخیلات و جذبات و تمنیات مستنیر ہوتے ہیں “……اوریہ بھی کہ شعور کا یہ نوری نقطہ “فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کا شیرازہ بند ہے۔۔۔۔۔۔در حقیقت خودی انسانی شعور کا مرکزہ ہے۔۔۔یہ روشن نقطہ شعور انسانی کے تمام اعمال و افعال کو قابو میں رکھتا ہے ۔۔اس کی شیرازہ بندی کرتاہے۔۔المختصر شعور کا یہ روشن نقطہ ہے ،جو فطرت کی طرف سےودیعت کردہ انسانی صلاحیتوں ،طاقتوں اورکیفیتوں کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔،ان کو منتشر و پراگندہ ہونے سے بچاتا ہے اور انھیں مہمیز کرتا ہے۔۔۔اسی لیے علامہ بار بار اور مختلف انداز میں،اس نوری نقطے(خودی )کی وحدت  اور پرورش، تربیت، بیداری تعمیر اور استحکام (بالفاظ دیگر اثبات خودی ) کرنے پر زور دیتے ہیں  ۔۔