لاہور .میرے اندر میرے باہر :

یہ تحریر 388 مرتبہ دیکھی گئی

لاہور .میرے اندر میرے باہر :
(ڈاکٹر مظفر عباس صاحب کی نئی کتاب)


لاہور کا نام سنتے ہی سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔ہر سو اک روشنی دیکھائی دینے لگتی ہے ۔آج کل لاہور کا عشق ہوش وحواس پہ مکمل طور پر غالب ہے۔مجھے یوں لگتا ہے کہ لاہور میرے من کے اندر بس چکا ہے ۔اسی کیف و مستی کی حالت میں اگر اک کتاب سامنے آئے جس کا عنوان یہ ہو .لاہور میرے اندر میرے باہر. تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کس قسم کی تازگی عطا ہو گی
۔ اس کتاب میں استاد محترم ڈاکٹر مظفر عباس صاحب نے اپنی آپ بیتی بیان کی ہے جسے لاہور بیتی بھی کہا جا سکتا ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے بچپن کی یادیں لکھیں تو ساٹھ اور ستر کی دہائی کا نکھرا ،پھولوں سے اٹا ،راوی کے پانیوں سے سیراب ،پھلوں ،درختوں اور باغات سے بھرا ہوا لاہور نظر آتا ہے ۔اس وقت اندرون لاہور کے اطراف میں بھی بچ رہنے والے پودے اور درخت لاہور کی سرسبز ،شاداب اور مرطوب موسوں کی خبر دیتے تھے ۔ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں اپنی اوائل زندگی کے ایام ،اپنی کی جوانی کے قصے اور ریٹائرڈ زندگی تک کی داستان مختصر مگر دلکش پیرائے میں بیان کی ہے ۔
اس کتاب کی جاذبیت اور فسوں کا اندازہ لگائیں کہ میں نے یہ کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی ۔
اورنٹیل کالج لاہور میں ان کا داخلہ اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کرم نوازیوں کا سلسلہ عہد رواں کے اساتذہ کے لیے مینارہ نور ہے ۔ان کو ارونٹیل میں کالج میں اردو میں داخلہ دینا ۔
مری میں جب مظفر صاحب بیمار ہوئے تو عبادت صاحب کا اپنی اہلیہ سمیت ان کے تمیاداری لیے رک جانا اور ان کے ایم اے کے تھسیز کا وائیواجو صوفی تبسم صاحب نے لیا وہ کہانی تو ہے ہی دل پذیر ۔
کہاں سے اب استاد آئیں ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب جیسے جو اپنے طالب علم کی پہلی کتاب چھپوانے کے لیے پبلشر کے پاس ڈاکٹر مظفر عباس کو لے کر جائیں ۔ان کی پہلی ملازمت کروانے کے لیے رقعہ رکھ کر دیں ۔کدھر سے آئیں گے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی جو مظفر عباس صاحب کی طرح اپنے طالب علموں کو انٹرویوز کی تیاری کروائیں گے ۔استاد محترم ڈاکٹر اختر میرٹھی جیسا دوست ڈھونڈنے کو بھی نہیں ملے گا جو مظفر عباس صاحب کو سائیکل پہ بیٹھا کر لاہور کے گلی کوچوں کی سیر کروائے۔اس کتاب میں استاد اور شاگرد کے مقدس رشتے کی کہانی دل کو موہ لیتی ہے ۔موجودہ دور کے اساتذہ ان اوراق سے ایسا تریاق کشید کر سکتے ہیں جو ان کی آمدہ زندگی کے لیے زادراہ بن جائے گا ۔
ڈاکٹر مظفر عباس کی ترقی کاسفر کبھی رکا نہیں ۔وہ جی سی اور ایف سی کالج سمیت مختلف کالجز میں اردو پڑھاتے رہے ۔کئی کالجز کے پرنسپل بھی بنے ۔مصر میں ڈاکٹر ابراھیم اور ڈاکٹر نجیب جمال صاحب کے ساتھ اردو پڑھاتے رہے ۔برطانیہ بھی کچھ عرصہ نصاب سازی کے ہنر سے شناسائی حاصل کی ۔نصاب سازی پر ان کی کتاب کو سنگ میل نے چھاپا ۔ترکی اور امریکہ کے علاؤہ کئی ممالک ان کی آوارگی کے گواہ ہیں ۔مجھے استاد محترم کے کمال ضبط کو بھی داد دینی ہو گی کہ ساری زندگی آوارگی میں نہ ان کی نظر بہکی ،نہ ہی ان کو کسی حسین چہرے نے متاثر کیا اور نہ ہی دل پر کسی نازک نینوں نے حملہ کیا ۔اس کتاب میں ایسا کوئی بھی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔
ان کا ڈاکٹر سعادت سعید صاحب کے ہمراہ لندن کی سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بس پر سیر کرنا یادگار واقعہ تھا اور پھر ویزا آفس نہ جانے کی وجہ سے حسن رضوی صاحب سے خوف زدہ ہونا فطرتی امر تھا
یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں وائس چانسلر کے عہدے پر فائز رہے ۔ ان کے بہت سے شاگرد اعلی عہدوں پر فائز ہیں ۔لاہور کی اکثر جامعات اور کالجز میں ان کے شاگرد پڑھاتے ہیں ۔ڈاکٹر جعفر علی میرے دوست ہیں اور مہربان ہیں وہ ان کے شاگرد ہیں ۔مظفر عباس صاحب ڈاکٹر جیلانی کامران کے عہد میں گورنمٹ شالیمار کالج باغباں پورہ لاہور میں پڑھاتے رہے ہیں ۔
مجھے یہ کتاب ڈاکٹر عابدہ بتول نے از راہ تلطف بھیجی وہ بھی مظفر عباس صاحب کی شاگرد ہیں ۔
قصہ مختصر یہ کتاب اپنے اسلوب ،واقعاتی تنوع ،اورنٹیل کالج اور لاہور کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے ۔


میری دانست میں بے جا اور حد سے زیادہ اختصار نے اس کا حسن تھوڑا سا گہنا دیا ہے ۔اس کتاب میں کئی مواقعے ایسے ہیں جہاں استاد محترم کے قلم کو رقص کرتے ہوئے طوالت کا دامن تھامنا چاہیے تھا ۔
۔ہم جیسے عشاق لاہور کی تمنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنی لاہور کی یادوں کو از سر نو اضافے کے ساتھ شائع کریں ۔مجھے اندازہ ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں کیوں کہ ان کی تیراکی اور ورزش کی تصاویر سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچتی رہتی ہیں ۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میرا دل چاہا کہ ہائے کاش استاد محترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب ،ڈاکٹر مظفر عباس ،ڈاکٹر اختر میرٹھی.ڈاکٹر سعادت سعید کا قرب ہمیں ملے ۔ہم اندرون لاہور کے کسی تھڑے پر بیٹھ کر استاد محترم ڈاکٹر تبسم کاشمیری صاحب سے لاہور کے مزیدار قصے سنیں ۔اندرون لاہور کے روایتی ناشتے اور لسی سے لطف اٹھائیں ۔
استاد محترم ڈاکٹر مظفر عباس صاحب کو بہترین انداز میں اپنی زندگی کے کئی اہم اور تاریخی گوشے بیان کرنے پر مبارکباد ۔ان کا طرز تحریر شاندار اور دل موہ لینے والا ہے ۔کتاب کے بیک ٹائٹل پر ہمارے مرشد تبسم کاشمیری صاحب کے ہاتھ سے لکھے تبصرے نے اس کتاب کی معنویت کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔
بالا دیگر استاد محترم ڈاکٹر مظفر عباس صاحب کو مبارک باد
ڈاکٹر نعیم گھمن
شعبہ اردو
گورنمنٹ شالیمار کالج باغبان پورہ لاہور