قلبِ ظلمات __اردو میں

یہ تحریر 4030 مرتبہ دیکھی گئی

          ترجمہ شیشے کی کھڑکی ہے، جس میں سے دوسری تہذیب کا حال احوال معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے شیشے سے باہر دیکھنے پر، مدھم اور غیر واضح سہی، دیکھنے والے کا عکس بھی نظر آئے گا۔ ایک ماہر مترجم اس عکس(اپنی شخصیت) کو امکانی حد تک معدوم رکھنے کی سعی کرتا ہے اور مصنف کی زبان اورترجمے کی زبان کے درمیان مطابقت کا پل تعمیر کرکے اصل متن اور ترجمے کے متن کی معنوی یکجائی کی صورت بناتا ہے۔ مترجم اس صورت گری میں اصل متن کی حرمت کا اس قدر خیال رکھتاہے کہ ترجمے پر طبع زاد ہونے کا گمان نہیں ہوتا۔یوں دیکھنے پر ترجمہ پیچیدہ عمل نظرآتا ہے، اور یہ ہے بھی۔ یہ عمل اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے جب متن کی دشواریاں لفظوں کی ثقافت کا ادراک  نہ ہونے کے سبب ترجمہ نہیں ہوپاتیں۔درست طور سے ترجمہ نہ ہوپانے کے چند اسباب اور بھی ہیں: متن کا ادق موضوع، خیالات کا عمق، لغت کے موزوں ترین استعمال سے ناواقفیت، واقعاتی مظاہر کی ٹیڑھی لکیریں، وغیرہ۔

          ”قلبِ ظلمات“ کا انگریزی متن گنجلک اوردشوار گزار ہے۔ اس کافکشنی بیانیہ بھی سیدھے سبھاو کا نہیں۔ ممکن ہے اسی سبب سے اردو کے مترجموں کو، ناول کی اشاعت کاایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوصف،اسے ترجمہ کرنے کا حوصلہ نہ ہوسکا۔ادبی تخلیقات کو ترجمانا ہاری ساری کا کام نہیں۔ ادبی مترجم کو ایک نسبتاََ اجنبی زبان کے متن کو اپنی زبان میں پیش کرنے کے لیے قریب قریب اتنی ہی محنت اور فنی مہار ت درکار ہوتی ہے جتنی ایک اداکار کو کسی اجنبی رول ادا کرنے کے لیے بروے کار لانا ہوتی ہے۔تاہم ترجمہ اداکاری نہیں ہے؛ پہلی، جمالیاتی و فنی قدروں میں باقی، دوسری فانی چیز ہے۔

          محمد سلیم الرحمن کے ادبی رتبے سے ایک زمانہ واقف ہے۔ ”جہاں گرد کی واپسی“،”چیخوف کے ڈرامے“، ”کارل اور اینا“، ”گم شدہ چیزوں کے درمیان“، ”اسیرِ ذہن“، ”رباعیات سرمد“، ”پہاڑ کی آواز“، ”چلتا پرز ہ“ اور کئی اور تراجم  محمد سلیم الرحمن کی ریاضت اور انہماک کا ثمر ہیں۔ ”قلب ظلمات“ انہی بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔افریقہ میں یورپ کی سفاکیوں اور ہولناکیوں کی داستان سناتا ”قلب ظلمات“  ایک طرف مصنف جوزف کونرڈ کے بلند تخیل اور فنی پختگی کا آئنہ، تو دوسری طرف مترجم کی علمی لگن،احساسِ ذمے داری اور لسانی دلچسپیوں کا گواہ ہے۔اب ذراترجمے کی فنیات، جمالیات، ارتباط،معنوی برابری، اجزا کے تجزیے کی مہارت اور مضمرات پر ایک نظر دوڑائیے اور سلیم صاحب کے ترجمے کی رمزوں سے لطف و فیض اٹھایے۔

          پہلے آئیے ناول کے ترجمہ شدہ عنوان کی سریت کی جانب۔قلبِ ظلمات! کتنا اچھا اور جی لبھا وترجمہ ہے! انگریزی کے ’ہارٹ‘(Heart (کی طرح کثیر المعانی۔ذرا عربی لغت میں قلب کے مترادفات پہ نگاہ دوڑائیے:  تبدیلی، عکس، دل،دماغ، عقل، باطن،درمیان، مرکز، جوف، قوت، وسط، مغز۔انگریزی لغت بھی heart کے یہی معانی دکھاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت  لفظ ’ظلمات‘ کی ہے۔یہ ظلمۃ کی جمع ہے جو ظلم  سے مشتق ہے۔یوں اس کے معانی تاریکی کے علاوہ نا انصافی، بد سلوکی، حق تلفی کے بھی ہیں۔ اس کثیر المعانی سیاق کو ذہن میں بٹھلا کر ناول پڑھنے والے پر ناول کے موضوع کا سارا کچاچٹھا کھل جاتا ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ناول، آغاز سے انجام تک اپنے عنوان کے معنوی گھن چکر سے باہر نہیں نکلتا۔موضوع کا عنوان کی قید سے باہر نہ آسکنا تصنیف کی کامیابی میں سے ہی تو ہے۔جوزف کونرڈ کی اس کامیابی میں سلیم صاحب بھی ساجھے دار ہیں؛ برابرکے ساجھے دار۔ناول کے آ غا ز اور انجام سے ایک ایک مقتبس مثال کے لیے پیش خدمت ہے:

          ”گریوزینڈ کے اوپر فضا تیرہ و تار تھی اور مزید پرے کثیف تر ہوکر  ماتمی اندھیرے سے مشابہ ہوتی تھی جو دنیا کے سب سے بڑے    اور بزرگ ترین شہر پر بے حس و حرکت مسلط تھا۔“(پہلا پیرا)

          ”ساحل سے دور پرے سمند ر پر گھٹاوں کا کالا سیاہ اٹم راہ رو کے کھڑا تھا اور دنیا کے بعید ترین سروں تک لے جانے والی پر سکون   آب راہ ابر آلود آسمان تلے بجھی بجھی بہے جاتی تھی__جیسے کسی بے کراں ظلمات کے دل میں اترتی جا رہی ہو۔“

                                                                                                          (ناول کا اختتامی جملہ)

          بعض متن اپنی لفظیات اور معنویت کی وجہ سے بہت ہی خاص ہوتے ہیں۔ان متون کے اجزا کے ترجمے کے دوران خاص لفاظی یا اصطلاحات کو استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ایسا اس لیے لازم ہے کہ ایک زبان کی معنویت دوسری زبان تک جاتے جاتے گم نہ ہو، بلکہ درست طور سے ابلاغ ہوجاے۔اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے ترجمہ کی زبان میں متبادل لغت کا جاننا اور اس کا صحیح اور بر وقت استعمال ضروری ہے۔ ”قلبِ ظلمات“ میں مترجم اس فن میں مشاق دکھتے ہیں۔

ناول کے تقریباً آخر میں مینجر کا ملازم لڑکا حقارت بھرے لہجے میں ناول کے مرکزی کردار کرٹز کی موت کا پیغام ان الفاظ میں دیتا ہے:        

                   “Mistah Kurtz_he dead”

اب ان محض چار لفظو ں پہ مشتمل،انگریزی گرامر کی رو سے ادھورے جملے کا اردو ترجمہ پڑھیے اور سر دھنیے:

          ”کرٹز صیب _فوت گیا“

          مترجم نے خود کو سہولت میں ڈال کر رواروی میں ”کرٹز صاب، مرگیا“  یا  ”جناب کرٹز، وہ فوت“لکھ کر جان چھڑانا نہیں چاہی۔ وہ ترجمے کی پہلی صورت اپنا لیتے تو بھی ان پہ کوئی اعتراض نہ اٹھاسکتا تھا کہ اس سے مفہوم توادا ہورہا تھا۔مگر، جیسا کہ پہلے لکھا گیا،صرف و محض مفہوم کی ادائی بڑے مترجم کا منصب نہیں۔ایک زبان کی ثقافتی حسیات کو دووسری زبان کی ثقافتی حسیات میں اس طرح منتقل کرنا ہوتا ہے کہ معنوی برابری بھی قایم ہو اور ترجمہ ترجمہ لگے بھی۔”صیب“ اور ”فوت گیا“ نہ صرف ترجمے کی زبان کی درستی بلکہ معنوی برابری کے معاملے کا بھی کامل اظہار ہیں۔ ضمناََ ایک اور دلچسپ مثال پڑھتے جایے:

                   ”اس نے خون اتری آنکھیں پھیلاتے اور نکیلے دانتوں کی جھلک دکھاتے ہوے تڑخ کر کہا۔”اسے پکڑو۔ ہمیں دو۔“ ”تمھیں، ہیں؟“ میں نے پوچھا۔”تم ان کا کیا کرو گے؟“ ”کھائے گا!“

(He snapped, with a bloodshot widening of his eyes and a flash of sharp teeth__”catch ‘im. Give ‘im to us”. “To you, eh?”, I asked; “what would you do with them?” ” Eat ‘im!”)

اس مثال میں معنوی برابری مترجم کے دونوں زبانوں کے گہرے ثقافتی فہم کی بدولت پیدا ہوئی ہے۔

          محمد حسن عسکری نے لکھا ہے، ”جن ترجموں سے تخلیقی ادب پر کوئی اثر نہ پڑے ان کا جواز کیا ہے۔ ترجمے کا تو مقصد ہی یہ ہونا چاہیے کہ، خواہ ترجمہ ناکام ہو، ادیبوں اور پڑھنے والو ں کے سامنے ذرائع اظہار کے نئے مسائل آئیں۔ خواہ کوئی ادبی مسئلہ حل نہ ہو، مگر ترجمے کے ذریعے کوئی ادبی مسئلہ پیدا تو ہو۔“ (ستارہ یا بادبان:گرترجمے سے فائدہ اخفائے حال ہے)

          یقینا یہ ادبی مسئلہ، اپنی نوع میں،موضوعی سے زیادہ اسلوبیابی یا لسانیاتی ہے۔ فکشن کا ایک گتھا ہوا ترجمہ اس فکشن کی بیانیاتی رمزوں کا آئنہ بھی تو بننا چاہیے۔ اسی صورت میں ہی مترجم زبانِ اردو کے اسالیب میں مقدور بھر اضافے کی امید دلا سکتا ہے۔اسی امید اور خواہش کا اظہار خود عسکری کرتے رہے۔  وہ اپنے تراجم __مادام بواری، ستاں دال__ کو فنی طور پر کامل ماننے سے انکاری تھے۔اس انکار میں ان کے انکسار کو دخل ہوگا۔ علاماتِ اوقاف سے معنی خیزی مثلاََ جس  مہارت سے جوزف کونرڈ نے انگریزی متن میں کی ہے، قلب ظلمات میں اس کا اہتمام سلیم صاحب نے کمال احتیاط اور باریک بینی سے کیا ہے۔ مترجم مصنف کی انگلی تھامے، عقید ت و احترام سے محو خرام ہے؛جدھرمصنف ٹھیرتا ہے؛ مترجم ادھر ٹھیرنا فرض اور ضروری خیال کرتا ہے؛ مصنف بات کرتے کرتے خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے، مترجم اس کی اتباع کرتا ہے؛ مصنف اچانک چیختا ہے؛ مترجم اس کا ساتھ دیتا ہے؛ مصنف بات کو ادھورا چھوڑدیتا ہے؛ مترجم بھی ایسا ہی کرتا ہے۔وہ حیران،یہ حیران۔وہ مبہوت، یہ مبہوت۔خیر۔چھوڑیے!

درج ذیل مقتبسوں میں رموز کا کھیل دیکھیے:

          ’چوڑی پٹی دکھائی دے رہی تھی__اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ باقی دنیا، جہاں تک ہمارے کانوں اور آنکھوں کا تعلق تھا، کہیں تھی ہی نہیں۔ سرے سے ناپید، اُڑن چھوُ، غائب غلاّ؛ اپنے پیچھے کوئی سرسراہٹ یا پرچھائیں چھوڑے بغیر لپیٹی جا چکی تھی۔‘ (ص۵۵)

          ’لیکن وہاں __ ایک عفریت  آسا اور بے قید چیز وہاں آنکھوں کے سامنے تھی۔ دنیا دنیا جیسی نہ رہی تھی، اور وہ آدمی جو تھے__ نہیں، وہ انسانیت کے دائرے سے خارج نہیں تھے۔ خیر،جانتے ہو، یہ شبہہ کہ وہ انسانیت کے دائرے سے خارج نہیں   __بد ترین بات یہی شبہہ تھا۔‘  (ص۹۴)

          ’ارے ہاں، بہت باتیں سننے کو ملیں، ضروت سے بھی زیادہ۔ اور میرا اندازہ درست نکلا۔ ایک آواز۔ وہ آواز ہی آواز تھا۔ آواز کے سوا شاید ہی کچھ ہو۔ اور میں نے اسے__ یعنی اس آواز کو__دوسری آوازوں کو سنا__کہ وہ سب لوگ آوازوں سے بس یوں ہی سے کچھ زیادہ تھے۔۔آوازیں، آوازیں __خود وہ لڑکی بھی__اب__‘  (ص۷۶،۶۶)

          اس حقیقت کا اظہار یا اعتراف کہ اردو زبان دوسری، خصوصاََ یوروپی زبانوں کے جملوں کے آہنگ یا پیراگرافوں کی ساخت و تعمیر کو اپنے اند ر سمونے کی بہت کم توانائی یا سکت رکھتی ہے، عسکری سے لے کر محمد عمر میمن اور شاہد حمید ایسے قابل مترجمین  نے کیا۔خود سلیم صاحب کو بھی اردو زبان کی تنگ دامانی کے بارے میں تشویش بہ لب دیکھا گیا ہے۔ بایں ہمہ،زیر ِ تبصرہ ترجمے کی کاملیت، صحت، لسانی جمالیات و درستی میں ایسا کچھ ہے جس سے امید کی واضح کرن نظر آتی ہے؛ایک ٹھنڈی اور اطمینا ن بخش روشنی جس میں اردو زبان کی ترقی کی امکانی

 حدوں کی پھیلاوٹ جھلکتی ہے؛اس پھیلاوٹ کو وسیع تر کرنے کے لیے سلیم صاحب کے جتنے بلندحوصلے،تخلیق کی پکی دھن، انہماک، صبر اور مہم جویانہ جذبے کی ضرورت ہے۔ ایسا جذبہ کمپیوٹر سی تیز رفتار دنیا کے تخلیق کاروں کو میسر ہی کہاں ہے۔عدم دستیابی کا سبب عدم اخلاص ہے۔ لوگ، ادیب لوگ،دکھاوے کی بھوک کے مارے ہوے ہیں؛ ہنر وری کا دکھاواصبروریاضت کو کھاجاتا ہے، اور ان دو نوں کے بغیر ”قلبِ ظلمات“ ایساوقیع ترجمہ کرنا محض خواب ہے!