قصیدہِ ہفت بہار

یہ تحریر 684 مرتبہ دیکھی گئی

بحضورِ سرورِ کونین محمد رسول ﷺ

چلا ہے جانبِ بطحا سے کاروانِ بہار
پیام لائی ہے موجِ ہوائے عنبر بار

ہوا کے دوش پہ چلتی ہے بادلوں کی قطار
امڈ امڈ کے برستی ہے نکہتوں کی پھوار

سجے ہوے گلِ تازہ سے ہیں در و دیوار
بنے ہیں بقعہئ انوار کوچہ و بازار

چمن میں دھوم مچی فصلِ گل کے آنے کی
ہوے ہیں نغمہ سرا طائرانِ خوش گفتار

افق سے تا بہ افق رنگ و نور کی برسات
زمیں سے تا بہ فلک اک کھلا ہوا گلزار

چمن چمن ہے کسی خوش خرام کی خوشبو
روش روش کسی دستِ حنائی کے شہکار

ہر ایک پھول کسی گل بدن کا عکسِ حسیں
شجر شجر میں کسی سرو قد کے ہیں آثار

فروغِ سبزہ و گل سے زمیں مزین ہے
پہن کے خلعتِ نورنگ ہیں کھڑے اشجار

بہارِ تازہ سے یوں معتدل ہوئی ہے فضا
افاقہ پانے لگے دردِ عشق کے بیمار

بہار آنے پہ بدلا ہے ایسا رنگِ چمن
چمن چمن نہیں، ہے گلستانِ ہفت بہار

کسی بہشت شمایل کی آمد آمد ہے
خوش آمدید کو اہلِ چمن ہوے تیار

چمن میں قمریاں نعتِ رسولؐ پڑھتی ہیں
ادب سے محوِ سماعت ہیں سامعینِ بہار

ردائے آب بپاسِ ادب ہوئی ساکن
نسیمِ صبح نے کھولا ہے طبلہئ عطّار

بصد نیاز عنادل درود پڑھتے ہیں
صبا کے جھونکوں میں صلِّ علیٰ کی ہے تکرار

فصیلِ شہر پہ چڑیوں کی ٹکڑیاں بیٹھی
دعائیں کرتی ہیں دایم رہیں یہ لیل و نہار

قصیدہ خوانِ محمدؐ ہوں، یہ مرا اعزاز
اسی لیے میں غزل میں بھی ہوں سلیقہ شعار

غزل کے ساتھ ہے دل سے مناسبت مجھ کو
نہیں ہے نام وروں میں اگرچہ میرا شمار

غزل عروسِ سخن، دلبرِ سخن داناں
کہ آہووں میں ہے جس طرح آہوے تاتار

چل اے قلم مرے، حاضر ہو میری طبعِ رواں
اسی زمیں میں کہیں اب غزل کے چند اشعار