کیا کسی شخص کی وصولیابیوں کے منظر کو اس کے پس منظر سے الگ کر کے دیکھا جاسکتا ہے؟غالباً نہیں۔کم از کم صحیح اور مکمل طورسے تو ہرگز نہیں۔زندگی میں اکثر ایسے چھوٹے بڑے واقعات پیش آتے ہیں جو اس وقت لگتے تو معمولی ہیں،مگران کے اثرات دیر پا اور فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔یہ اثرات مثبت اور منفی دونوں ہو سکتے ہیں۔یہ واقعات اوراثرات پس پردہ ہو سکتے ہیں اور شاید ہمیشہ پس منظر کا کام کرتے ہیں۔
یہاں میں اپنے بچپن کے ایک دوست کی زندگی کے بعض واقعات کا ذکر کرنا چاہتا ہون جن کے بغیر اس کی زندگی وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔
پہلے یہ بتادوں کہ ہماری ملاقات ۱۹۴۹میں ہوئی جب ہم دونوں انٹر کے طالب علم تھے۔بی۔اے۔تک ساتھ رہا، پھر ہمارے راستے الگ ہو گئے۔پھر بھی،لڑکپن کی دوستی قدیم اور دیر پا ثابت ہوئی اور آج ستر سال تک نشیب و فراز کے باوجود حسب معمول قائم ہے۔میں کہہ سکتا ہوں کہ ہماری دوستی دو صاحبان ایمان کی دوستی ہے۔ اگر غالب کا دعویٰ درست مانا جائے کہ وفاداری بشرط استواری عین ایماں ہے اور سودا کی بات مانی جائے کہ ثابت قدم کفر کو تمغاے مسلمانی کا حقدار سمجھا جانا چاہئے،تو مجھے ہم دونوں کی مسلمانی اور صاحب ایمانی میں کوئی شک نہیں،ہر چند کہ میں صوم و صلواۃ والا ہوں اور میرے دوست موصوف اس کوچے میں بس کبھی کبھی تبدیل آب وہوا کے لئے آئے گئے ہیں۔
آپ کے والد صاحب محکمہ تعلیم میں چھوٹے سے افسر تھے۔بے حد فرض شناس، انتہائی ایمان دار۔بھرا پر اگھر، ان کی خواہش فطری تھی کہ ہمارے دوست بی۔اے۔پاس کر کے(۱۹۵۳) کہیں ملازمت اختیار کریں۔ لیکن یہاں تو یاروں کو انگریزی شعر واد ب کی د یوی نے مسحور کر رکھا تھا۔ان کی تمنا تھی کہ الٰہ آباد جائیں، وہاں کی شہرہ آفاق یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم۔اے۔کریں۔گھر میں بہت کشمکش رہی، گھر سے دور جا کراجنبی جگہ پر رہنا اور پڑھنا بڑا مشکل لگتا تھا۔لیکن ماں نے ہمت افزائی کی، باپ سے جوامداد ممکن تھی، وہ بہت تھوڑی سہی، لیکن ان کی دعائیں ساتھ تھیں۔ الٰہ آباد پہنچے، داخلہ ہوا اور تعلیم، اور تعلیم سے زیادہ کورس کے باہر کی کتابیں پڑھنے اور بالخصوص انگریزی تنقید کو ڈوب کر پڑھنے کا سلسلہ آغاز ہوا۔
یہاں مجھے ہندوستان کے سابق صدر مملکت اور نامور سائنس داں ڈاکٹر کلام یاد آتے ہیں،کہ ان کی بڑی بہن نے اپنے طلائی کنگن بیچ کر بھائی کی تعلیم جاری رہنے کے وسائل مہیا کئے تھے۔میرا دوست صدر جمہوریہ نہ سہی، لیکن مملکت ادب کا صدر نشین ضرور بنا اور اس عمل میں ا لہٰ آباد یونیورسٹی اور خاص کر ان کے استاد پروفیسر ستیش چندر دیب (جن سے محمدحسن عسکری نے بھی اپنے وقت میں بہت کچھ سیکھا تھا)کا فیضان یقیناً شامل تھا۔ لیکن ابھی حالات کو کئی کروٹیں لینا باقی تھیں۔
میں علی گڈھ چلا گیا تھا اور تعلیم کا علم سیکھنے میں مگن تھا۔میں وہاں بہت دن رہ گیا اور علی گڈھ کی زندگی میں جذب ساہو گیا۔ ادھرالٰہ آباد میں ہمارے پیارے دوست کی ملاقات جمیلہ ہاشمی سے ہوئی جو لڑکیوں کے ایک کالج کی پرنسپل تھیں۔ وہ تاریخ سے ایم۔اے۔ کر چکی تھیں لیکن انھیں انگریزی میں بھی ایم۔اے۔ کرنے کا شوق تھا۔اس وقت تک ہمارے دوست کی شہرت کم سے کم شہری حلقوں میں تو پھیل ہی چکی تھی کہ یہ انگریزی کے بڑے ماہر ہیں۔ جمیلہ ہاشمی کی ایک پڑوسی نے دونوں کا تعارف کرا دیا۔جمیلہ کو ٹیوٹر کی ضرورت براے نام ہی تھی، لیکن کورس کی کتابیں بہر حال کورس کی کتابیں ہوتی ہیں۔انھیں بخوبی سمجھنا ضروری تھا۔جمیلہ کا تعلق الٰہ آباد کے ایک ذی حیثیت خاندان سے تھا۔وہ خود بھی بے حدخوش شکل، خوش لباس، ذہین،معاملہ فہم،اور دور اندیش لڑکی تھیں،ایسی کہ اس زمانے میں خال خال ہی نظر آتی تھیں، خصوصاً مسلمانوں میں۔فاروقی بتاتے ہیں کہ ایک بار کئی سال بعد حیدر آباد میں ان کی ملاقات جمیلہ کی ایک سابق شاگرد سے ہوئی تو انھوں نے پوچھا کہ کیا مس ہاشمی اب بھی ویسی ہی خوش لباس ہیں؟ جمیلہ نے ہمارے دوست کی صلاحیتوں اور امکانات کا اندازہ لگا لیا تھا۔ ان کا اخلاقی تعاون، درد مندی اور پشت پناہی،ہمارے دوست کے لئے راہیں کھولنے میں ممد ہوئے اور انھوں نے ایم۔اے۔ فائنل میں اول نمبر اور دیگر انعامات حاصل کئے۔اب جب کہ میں نے جمیلہ کا ذکر ان کے نام سے جگہ جگہ کردیا ہے تو یہ بھی عرض کردوں کہ اس کہانی کے دوسرے کردار،اور میرے دوست کا نام شمس الرحمٰن فاروقی ہے۔
۱س کے بعد حالات کچھ ایسے پیش آئے کہ انھیں یونیورسٹی میں ملازمت نہ مل سکی۔ ریسرچ میں بھی داخلہ نہ مل سکا۔ وہ ان باتوں کا سبب زیادہ تر اپنی وارستہ مزاجی اور کچھ قلندرانہ مزاج اورطرزحیات کو قرار دیتے ہیں۔بہر حال انھیں ایک ڈگری کالج میں ملازمت مل گئی اور انھوں نے الٰہ آباد چھوڑ دیا۔لیکن الہٰ آباد ان کو کہاں چھوڑنے والا تھا۔ جمیلہ کے ساتھ انھوں نے ان کے والدین کی مرضی، لیکن اپنے والدین کی نا رضامندی سے شادی کر لی۔ یہ بات ۲۶ دسمبر ۱۹۵۵ کی ہے۔ دونوں کی عمروں میں کچھ تفاوت ضرور تھا لیکن غمخواری اور یگانگت نے طرفین کی تمام رکاوٹیں دور کردیں۔ یہ بھی یہاں بتادوں کہ اس واقعے کے بہت پہلے فاروقی ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلے آئے تھے اور گھر سے ان کا رشتہ ٹوٹ چکاتھا۔
فاروقی جب شبلی کالج میں پڑھا رہے تھے تو بالکل اتفاق سے، اور ایک دوست کے اصرار پر،انھوں نے سول سروس کے امتحان کا فارم بھر دیا۔ ان کے دل میں اب بھی یو نیورسٹی میں پڑھانے کی تمنا موجزن تھی۔ ا لہٰ آباد نہ سہی علی گڈھ سہی، جہاں اس وقت کے صدر شعبہ پروفیسر بوس،فاروقی کے مداحوں میں تھے۔لیکن فارم بھردیا گیا تو امتحان دینا بھی لا بدی ٹھہرا۔اور جب امتحان دیا تھا تو کامیابی بھی یقینی تھی۔فاروقی نے اس امتحان کے لئے کالج سے کوئی چھٹی نہیں لی۔اکثر یہ ہوا کہ ایک دن کے کلاس پڑھانے کے بعد انھوں نے اگلے دن کی چھٹی لی، الٰہ آباد آئے اور شام کو اعظم گڈھ واپس۔اس کے باوجود انھیں سارے ہندوستان بھر میں سب سے زیادہ نمبر ملے۔ لیکن انٹرویو میں کچھ ایسا پیچ پڑا کہ انھیں اعلیٰ ترین ملازمت کی جگہ پوسٹل سروس کے لئے منتخب کیا گیا۔ فاروقی اس پر خوش اس لئے تھے کہ یہ نوکری بھی ان کے گوں کی تھی۔ سیاسی بکھیڑوں سے مطلب نہ تھا، اچھے شہروں میں تعیناتی ہوتی تھی۔وہ لکھنے پڑھنے کا کام دلجمعی سے کر سکتے تھے۔والدین سے تعلقات انھوں نے دھیرے دھیرے بحال کر لئے، پھر اس کامیابی نے حالات اور بھی بہتر کر دیئے۔
یہ سب تھا، لیکن ادبی کامیابی بہت دور تھی۔ بلکہ یہ بھی عرض کردوں کہ فاروقی نے طالب علمی کے زمانے میں ایک چھوٹا سا ناول لکھا تھا اور وہ’معیار‘ نامی میرٹھ کے ایک ماہنامے میں بالاقساط چھپ بھی گیا۔ یہ بات ۱۹۵۰ کی ہے۔ فاروقی کہتے ہیں کہ مجھے اب اس کے ذکر سے شرم آتی ہے۔لیکن میں نے اسے محفوظ رکھا اور کچھ دن ہوئے دوبارہ شائع بھی کرا دیا ہے۔اس بات کا ذکر اس لئے بھی ضروری تھا کہ الٰہ آباد کے زمانے میں فاروقی نے ایک اور ناول شروع کیا تھا۔ لیکن جمیلہ نے اسے کچھ خاص پسند نہ کیا تو فاروقی نے اسے وہیں مسترد کر دیا۔
ایک زمانے میں فاروقی کو انگریزی کا شاعر اور ادیب بننے کی تمنا تھا۔لیکن بہت جلد انھوں نے سمجھ لیا کہ اگر کچھ کرنا ہے تو اردو ہی میں کرسکتے ہو۔فاروقی نے تنقید کو اپنا میدان مقرر کیا، نئے طرز کے کئی مضامین غالب، ادب کے مسائل، وغیرہ پر لکھے، رسائل کو بھیجے،لیکن سلیمان اریب مرحوم کے پرچے ’صبا‘ حیدرآباد کے سوا کسی نے ان کی پذیرائی نہ کی۔اس زمانے میں فاروقی کی تعیناتی جمیلہ کے والد کی کوششوں کی وجہ سے الٰہ آباد میں ہو چکی تھی۔ یہاں اس وقت اردو شعر و ادب کا بہت دور دورہ تھا، کئی نئے اور اچھے شاعر اور افسانہ نگارتھے، لیکن گمنام تھے۔فاروقی کے جی میں آئی کہ نئی طرز کا ایک رسالہ نکالا جائے اور اس میں سب نئے لکھنے والوں کو قدر و عزت کے ساتھ چھاپا جائے۔جمیلہ نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا، اور یہ بات تو گویا طے شدہ تھی کہ سارے اخراجات جمیلہ برداشت کریں گی، لیکن خود انھیں کچھ نہ ملے گا۔’شب خون‘ نام کا پرچہ نکلا، اپریل ۱۹۶۶ میں اس کا پہلاشمارہ شائع ہوا جس پر تاریخ جون ۱۹۶۶ کی تھی۔ نام کی تجویز کرنے والوں میں ڈاکٹر اعجاز حسین اور پروفیسر احتشام حسین شریک تھے۔ وہ دن اور ’شب خون‘ کے آخری شمارے (۲۰۰۵) تک جمیلہ نے سب اخراجات خندہ پیشانی سے برداشت کئے اور کبھی پوچھا بھی نہیں یہ رقم کہاں اور کس مد میں صرف ہو گی۔آخری پانچ سات برسوں میں رسالہ خود کفیل ہو گیا تھا، لیکن اس کی آمدنی کا ایک حبہ اس وقت بھی جمیلہ کو نہ ملا، سب ’شب خون‘ ہی پر خرچ ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمیلہ کی غیر مشروط اور بے غرض ہمراہی کے بغیر ’شب خون‘ کبھی نہ نکلتا اور ’شب خون‘ کے بغیر فاروقی وہ نہ ہوتے جو وہ آج ہیں۔جمیلہ نے ہمیشہ اور ہر منزل پر فاروقی کی دستگیری کی۔ اس بات کا اعتراف فاروقی نے اپنے مضمون ’غبار کارواں‘ مطبوعہ ۱۹۷۲میں کیا اور تا حیات وہ اس اعتراف کی تجدید کرتے رہے۔
کہتے ہیں ایک بار کسی نے ایلس سے پوچھا کہ کیا آپ فیض کی شاعری کو سمجھتی ہیں، تو انھوں نے کہاکہ شاعری کو نہ سہی، شاعر کو ضرور سمجھ سکتی ہوں۔ میرا خیال ہے جمیلہ کا جواب ہوتا کہ میں شاعر اور شاعری دونوں کو سمجھ سکتی ہوں۔ہر چند کہ انھوں نے اس بات سے کبھی کوئی سروکار نہ رکھا کہ ’شب خون‘ میں کیا چھپتا ہے اور کیا نہیں، لیکن چھپنے کے بعد وہ جب ’شب خون‘ پڑھتیں تو بے تکلف اپنی رائے ور اکثر صائب رائے کا اظہار کرتیں۔فاروقی کی کئی غزلیں، اور بہت مشکل غزلیں، انھوں نے کالج میں بچیوں کو صدا بندی کے سا تھ یاد کرائیں اور کالج کے جلسوں میں انھیں سنوایا۔غالب اور میر کا کلام وہ اس انداز سے پڑھتی تھیں (ان کی آواز غیر معمولی طور پر سریلی تھی)کہ مجھ جیسے کم فہم کو بھی لذت آشنائی کا احساس ہوتا تھا۔اس کی لاشعوری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فاروقی نے خود لکھا ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا وہ جمیلہ کو مسرور کرنے اور انھیں اپنی قدر کا احساس دلانے کے لئے لکھا۔
جمیلہ سے میری ملاقات فاروقی سے ان کی شادی کے چند مہینوں بعد ان کے آبائی گھر میں ہوئی۔ اسی گھر میں ’شب خون‘ کا دفتر قائم ہوا، احتشام صاحب مرحوم کے ہاتھوں دفتر کا افتتاح ہوا۔ جمیلہ بھابی کی جس صفت نے مجھے فوراً متاثر کیا وہ فاروقی سے ان کی محبت تھی کہ انگ انگ سے پھوٹی پڑتی تھی۔ بعد میں ان کی شوہر پرستی کی شہرت خاندان اور خاندان کے باہر تمام مشک و عنبر کی طرح پھیلی۔ لطف یہ ہے کہ انھوں نے کبھی بھی کوئی ظاہری اشارہ ایسا نہ دیا جس سے معلوم ہو کہ وہ شوہر کو اپنا دین ایمان سب سمجھتی ہیں، لیکن خدا معلوم کس طرح سب کو احساس ہو جاتا تھا کہ وہ سچی شوہر پرست ہیں۔ مجھے انھوں نے ہمیشہ بھائی کہا اور بھائی کی طرح برتا۔ان کے گھر میں مجھے ہمیشہ وہی جگہ ملی جوکسی عزیز بھائی کو ملتی۔ان کی بیٹیاں مجھے چچا کہتی تھیں اور اب بھی کہتی ہیں۔
اگر ’شب خون‘ کو جمیلہ کی اولاد معنوی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اور ان کی اولادجسمانی، ان کی دو بیٹیاں جمیلہ کی تربیت اور تعلیم کے زیر سایہ پلیں اور پھلیں پھولیں۔ بڑی مہر افشاں اور چھوٹی باراں دونوں بے انتہا ذہین اور خوش شکل، ہند اسلامی تہذیب کے تمام پہلو انھوں نے اپنی ماں سے حاصل کئے۔اردو فارسی فاروقی نے پڑھائی، گھر میں انگریزی بولنا ممنوع کیا اور اب بھی ممنوع ہے۔باقی سب جمیلہ کی دین ہے، خوش لباسی، خوش کلا می، موزونیت طبع، رکھ رکھاؤ، سب کچھ انھیں ماں سے ملا۔میں اگرچہ اب بہت دور ہو گیا ہوں لیکن مہر افشاں اپنی کتابیں مجھے بھیجتی ہیں اور جب ہندوستان آتی ہیں تو ایک دو بار فون پر پرسش حال کر لیتی ہیں۔
جمیلہ کی تیسری اولاد، جو معنوی ہے بھی اور جسمانی بھی،ان کا قائم کردہ لڑکیوں کا انٹر کالج ہے۔ شوہر کے بعد اگر کوئی ان کی زندگی کا مرکز ومحورتھا تو وہ ان کا قائم کردہ قدوائی میموریل گرلس انٹر کالج تھا۔ بعد میں انھوں نے اپنی ایک زمین پر فاروقی الحمرا گرلس انٹر کالج بھی ایک انتہائی پس ماندہ علاقے میں قائم کیا۔پھر وہ زمین انھوں نے دونوں اسکولوں کے لئے وقف علی الدوام کردی۔اس کالج کے نام کا معاملہ یہ ہے کہ انھوں نے فاروقی سے ناموں کے لئے فرمائش کی۔الحمرا انھیں پسند آیا، اس شرط کے ساتھ کہ اس میں فاروقی کا نام بھی ہوگا۔ اس طرح فاروقی کی مخالفت کے باوجود فاروقی الحمرا گرلس انٹر کالج نام طے پایا۔
اکثر بہت نزدیک سے، اکثر بہت دور سے، میں نے ۱۹۵۶ سے لے کر ان کے سال وفات ۲۰۰۷ تک جمیلہ بھابی کو دیکھا اور برتا۔ میں اپنی اس رائے پر قائم ہوں کہ جمیلہ وہ سب کچھ تھیں جو انھیں شمس الرحمٰن فاروقی کے لے ہونا چاہیے تھا۔
نومبر ۲۰۱۹ ابرار اعظمی
خالص پور، اعظم گڈھ276 138 0








