قرأت، تعبیر، تنقید

یہ تحریر 1300 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)

                تعبیر اور تنقید:وجودیاتی اور علمیاتی بیانات

                تنقید کے نام سے جو تحریریں عموماً سامنے آتی ہیں انھیں پڑھ کر الجھن یا مایوسی کا احساس زیادہ تر اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ تنقیدی تحریر میں تنقیدی نظریہ بہت کم  دکھائی دیتا ہے۔بلکہ یوں کہیں کہ ہم ان تحریروں میں نظریے کی بہت ہی ابتدائی شکل، اور پھر بہت سے کچے پکے نظریات کے ملغوبے سے دو چار ہوتے ہیں۔ لہٰذا پوچھنے والے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب آپ کسی تنقیدی نظریے کی روشنی میں کسی فن پارے کے معنی بیان کرتے ہیں یا اس پر تنقید لکھتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟ یعنی آپ اپنے نظریے کو عمل میں لاتے ہوئے تنقید لکھتے ہیں تو وہ تنقید کس طرح رونما ہوتی ہے؟ملحوظ رہے کہ کسی فن پارے کے معنی بیان کرنا اور اس پر تنقید کرنا ایک ہی کار گذاری کے دو پہلو ہیں۔معنی بتائے اور سمجھائے بغیر تنقید نہیں ہو سکتی اور تنقید کئے بغیر آپ معنی بیان نہیں کر سکتے۔”تعبیر“ سے مراد ہے، کسی فن پارے معنی بیان کرنا۔ اور ’تنقید“ سے مراد ہے، (۱)کسی فن پارے کی خوبیاں یا کمزوریاں بیان کرنا، یعنی اس کی فنی قدر یا مرتبہ مقرر کرنا،اور (۲)فن پاروں کے بارے میں ایسے بیانات وضع کرنا جن کا عمومی اطلاق ان فن پاروں پر ہو سکے جو ایک ہی نوعیت کے ہیں یا ایک ہی صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔در اصل تنقید اور تعبیر باہم الجھے ہوئے دھاگے ہیں  اور ان کا آپس میں الجھا ہوا ہونا بعض اوقات مشکل پیدا کرتا ہے۔

                 تعبیری اقوال یا فقرے دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ یعنی جن بیانات کو تعبیری کہا جاتا ہے وہ دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔ ایک کو ہم اپنی سہولت کی خاطر ادبی یاوجودیاتی  (Ontological Statements)  اور دوسری طرح کے بیانات کو فلسفیانہ یاعلمیاتی یعنی  Epistemological Statements کہہ سکتے ہیں۔ آسانی کی خاطر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادبی/وجودیاتی اقوال کا سروکار فن پارے کے فنی پہلوؤں کی طرف ہوتا ہے اور ان اقوال سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ فن پارے کے ان معنی کو محیط ہوتا ہے جن تک ہم فنی تجزیے کی روشنی میں پہنچ سکتے ہیں۔اور علمیاتی اقوال کا سروکار فن پارے کے فلسفیانہ، سماجی اور عقلی پہلوؤں سے ہوتا ہے۔ ان اقوال سے جو نتیجے بر آمد ہوتے ہیں وہ فن پارے کے ان معنی کو محیط ہوتے ہیں جن تک ہم فن پارے کے فلسفیانہ وغیرہ تجزیے کی روشنی میں پہنچ سکتے ہیں۔ ادبی/ وجودیاتی قول صرف اس فن پارے پر صادق آئے گا جس کے بارے میں وہ وضع کیا گیا تھا۔لیکن فلسفیانہ/علمیاتی قول بہت سے فن پاروں پر صادق آسکتا ہے۔موخر الذکر (یعنی علمیاتی بیان) کی اس صفت یاخوبی  (یعنی اس کے عمومی پن) کی بنا پر ہم اسے بھی عموماً تنقید کے زمرے میں رکھ دیتے ہیں۔

                اس طرح،فن پارے کی تعبیر کے لئے صرف دو طریق کار ہیں۔

                (۱) فن پارے کے طرز وجود کا مطالعہ، یعنی فن پارے کی ادبی اور فنی حیثیت کی روشنی میں اس کے معنی کا      تعین۔

                (۲) فن پارے کے علمیاتی مافیہ کا مطالعہ، یعنی فن پارے کی فلسفیانہ، سیاسی، وغیرہ حیثیت کی روشنی میں اس کے معنی کا تعین۔

                ہر چند کہ فن پارے کے بارے میں ادبی/وجودیاتی اقوال اورفلسفیانہ/ علمیاتی اقوال کی نوعیتیں مختلف ہیں،لیکن ان کے باہم دگر آویختہ ہونے کے باعث کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک طرح کا بیان بہت جلد دوسری طرح کے بیان کے منطقے میں جا نکلتا ہے اور کبھی کبھی دونوں مل کر کسی ایک تیسرے ہی منطقے میں جا نکلتے ہیں۔ مثلاً میر کا شعر ہے  (دیوان اول)  ؎

                                واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا

                                یاں شرم سے عرق میں ڈو ب آفتاب نکلا

                اب اس شعر کے بارے میں مندرجہ ذیل بیانات ملاحظہ ہوں:

 (۱)صبح کو سورج کا رنگ فطری طور پر سرخی مائل نارنجی ہوتا ہے لیکن صبح کا سورج کچھ جھلملاتا ہوا اور کچھ لرزتاہوا سا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پانی میں ہو۔معشوق کے چہرے کو سورج سے تشبیہ دیتے ہیں۔ان دونوں باتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ معشوق نے صبح کو شراب پی تو اس کا چہرہ  بر افروختہ ہو گیا۔ پھرمعشوق گھر سے باہر نکلا تو دیکھنے والوں (والے) کو ایسا لگا کہ سورج کا کچھ جھلملاتا ہوا سا اور لرزتا ہوا سا ہونا شرم کے باعث ہے۔یعنی ایسا لگا کہ سورج کے چہرے کی بھڑکتی ہوئی چمک شرمندگی کے پسینے کے باعث جھلملاہٹ اور لرزش اور سرخی میں تبدیل ہو گئی  ہے۔ اس تعبیر کی رو سے سورج کا شرمندہ ہونا واقعی نہیں ہے، بلکہ دیکھنے والوں (والے) کے عندیے میں ہے۔حقیقت جو کچھ بھی ہو لیکن جو کوئی بھی معشوق کو دیکھ کر سورج کو دیکھتا ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ سورج کو شرم آگئی ہے اور وہ پسینے پسینے ہو رہا ہے۔ اور یہ واقعہ صرف آج کے دن کا ہے، یعنی آج صبح کو ایسا ہوا۔

(۲)صبح کو سورج کا رنگ فطری طور پر سرخی مائل نارنجی ہوتا ہے لیکن صبح کا سورج کچھ جھلملاتا ہوا اور کچھ لرزتاہوا سا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پانی میں ہو۔معشوق کے چہرے کو سورج سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان دو باتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شعر میں یہ کہا گیا ہے کہ جب معشوق شراب پی کر بر افروختہ چہرہ لئے باہر نکلا تو اس کے حسن کو دیکھ کر سورج  شرم سے عرق آلود ہو گیا اور وہ کچھ سرخی مائل جھلملاتا اورکچھ لرزتا سانظر آنے لگا۔ یعنی صبح کے سورج کی لالی اور اس کی روشنی میں لرزش اور جھلملاہٹ فطری نہیں ہے بلکہ شرم کے پسینے کی وجہ سے ہے۔اور شرم اسے اس لئے آئی کہ معشوق اس سے حسین تر ہے۔یعنی اس بیان کی روسے یہ واقعہ ہر روز پیش آتا ہے اور صورت حال یہ نہیں ہے کہ”گویا سورج شرم سے عرق آلود ہے“۔ بلکہ یہ ہے کہ ”سورج بے شک اور فی الحقیقت شرم سے عرق آلود ہے“۔

                ظاہر ہے کہ شعر زیر بحث کے بارے میں یہ دونوں بیانات وجودیاتی نوعیت کے ہیں، یعنی ان میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ شعر کن باتوں پر قائم کیا گیا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ باتیں صرف اس شعر سے متعلق ہیں۔ یہ بیانات کسی اور شعر کے بارے میں نہیں ہو سکتے چاہے ان میں بھی معشوق کے چہرے کو سورج سے تشبیہ کیوں نہ دی گئی ہو۔

                (۳) شعر میں زمان اور فعل دونوں کی نسبت سے کئی طرح کے تواز ن قائم کئے گئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھئے تو دونوں مصرعوں میں الگ الگ صورت حال نظر آتی ہے۔یعنی  ایک طرف تو یہ ممکن ہے کہ سورج اپنے آپ ہی شرمندہ ہورہاہو کہ آج پھر معشوق کے بر افروختہ چہرے کا سامنا ہوگا۔دوسری طرح سے دیکھئے تو مصرع ثانی میں جو ہو رہا ہے وہ اس فعل کا نتیجہ ہے جو مصرع اول میں سر زد ہوا۔ افعال میں توازن یہ ہے کہ معشوق تو شراب میں ڈوبا، یا نشے میں ڈوبا اور سورج عرق میں غرق ہوا۔دوسرا توازن یہ ہے کہ سورج پہلے ڈوبا(عرق میں)، پھر نکلا (افق پر)۔تیسرا توازن یہ ہے کہ دونوں مصرعوں میں ”نکلا“ کے الگ الگ معنی ہیں۔ معشوق نکلا،یعنی باہر آیا اور سورج نکلا، یعنی طلوع ہوا۔

                اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کا بھی فوری تعلق اس سوال سے ہے کہ شعر میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ بات بھی واضح ہے  کہ جو کہا گیا ہے اس کا اطلاق صرف اسی شعر پر ہو سکتا ہے اور اس سے کوئی عمومی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔ لیکن اب کچھ مزید  اقوال دیکھئے:

                (۴) اس شعر میں جس معشوق کا ذکر کیا گیا ہے وہ شراب پینے والامرد ہے، بلکہ یوں کہیں کہ وہ  امرد ہے اور شراب بھی پیتا ہے۔اور چونکہ وہ امرد ہے لہٰذا اس شعر کا متکلم (اگر متکلم کو عاشق فرض کیا جائے)کوئی عورت نہیں ہے۔

                (۵) وہ صرف امرد ہی نہیں، بازاری شخص ہے، یا بازاروں میں پھرنے والا فرد ہے، لہٰذا ممکن ہے وہ امرد نہ ہو زن بازاری ہو۔اس صورت میں بھی متکلم (عاشق) عورت نہیں ہو سکتا۔

                ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اقوال نمبر ۴  اور ۵ کی کیفیت شروع کے تینوں بیانوں سے بالکل مختلف ہے، حالانکہ یہ بھی تعبیر ی بیانات ہی ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ نمبر ۴  اور ۵کی کیفیت یہ ہے کہ شعر میں جو لسانی اور بیانیہ صورت حال مذکور کی گئی تھی، نمبر ۴ اور ۵ میں اس صورت حال سے کچھ نتیجے نکالے گئے ہیں جن کا شعر کے معنی سے تعلق  توہے، لیکن یہ نتیجے ہمیں اس بات کے بارے میں کچھ اطلاع نہیں دیتے کہ شعر کن بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے۔ یعنی معشوق کا  اوباش ہونا، یا امرد ہونا، یا دونوں ہونا، یا زن بازاری ہونا، یا ان میں سے کچھ بھی نہ ہونا، ان باتوں سے شعر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معشوق کوئی بھی ہو، شعر کا مقدمہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ معشوق کی خوبصورتی کے سامنے سورج ماند پڑجاتا ہے اور معشوق کے سامنے  باہر نکلتے اسے شرم آنے لگتی ہے۔نمبر ۴ اور ۵سے ہمیں کچھ معلومات، یا یوں کہیں کہ کچھ علم حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں ہم شعر زیر بحث کی طرح کے دوسرے فن پاروں کے بارے میں بھی اظہار خیال کر سکتے ہیں۔لہٰذا یہ بیانات ہمیں تعبیر سے زیادہ تنقید کی طرف لے جارہے ہیں۔یعنی جب ہم کسی فن پارے کی روشنی میں ایسے نتیجے نکالیں جو بظاہر درست ہوں، یا واقعی درست ہوں،لیکن عمومی ہوں اور جن کا براہ راست تعلق فن پارے کے وجود سے نہ ہو(یعنی جن کے بغیر بھی فن پارہ بطور فن پارہ قائم ہو سکتا ہو) تو،ایسے نتائج اور ان سے متعلق بحث کو تنقید کے زمرے میں رکھا جانا بہتر ہو گا۔ مزید دیکھئے:

                (۶) معشوق کے امرد یا زن بازاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ شعر جس زمانے اور جس سماج کی پیداوار ہے اس زمانے میں عورتیں پردے میں رہتی تھیں لہٰذا عشق کرنے کے لئے صرف امرد اور زنان بازاری ہی نصیب تھیں۔شعر زیر بحث میں معشوق کا شرابی ہونا اور بازاروں میں کھلے بندوں پھرنا اس کے زن بازاری ہونے پر دال ہے اور اس کے بارے میں مذکر کے صیغے کا استعمال کر کے شاعر نے ظاہر کردیا ہے کہ یہ بھی امکان ہے کہ معشوق زن بازاری نہیں بلکہ اوباش قسم کا امرد ہے۔

                یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مندرجہ بالا کلام میں ہم تعبیر کی حد سے باہر نکلتے اور تنقید کی مملکت میں داخل ہوتے نظرآ تے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اب ہم تعبیر کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور تنقید لکھ رہے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم ادبی تنقید بھی نہیں، سماجی تنقید لکھ رہے ہیں۔یعنی یہاں جو کچھ کہا جارہا ہے وہ بظاہر تو شعر فہمی میں ہماری امداد  کے لئے ہے، لیکن درحقیقت شعر سے اس کا کوئی بنیادی یا سچا تعلق نہیں۔اس بات سے فی الحال ہم کوئی غرض نہ رکھیں گے کہ قول نمبر چھہ میں تاریخی یا/اور ادبی سچائی ہے کہ نہیں۔ اغلب ہے کہ بالکل نہیں ہے، لیکن اس وقت یہ معاملہ ہماری بحث سے خارج ہے۔ اس وقت اتنا کہنا کافی ہے کہ تعبیر اور تنقید کے نام پر ہمیں بہت سی غیر تنقیدی باتیں سننی اور کہنی  پڑتی ہیں۔یہ تمام تنقید کا، اور بالخصوص اردو تنقید کا المیہ ہے۔

                (۷)معشوق کا ز ن بازاری /امرد/شرابی/اوباش ہونا ہماری شاعری کی اخلاقیات پر بد نما دھبہ ہے۔ایسے ہی اشعار کی بنا پر ہماری شاعری بد نام ہے، اور ایسے ہی اشعار کی بنا پر لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اردو شاعری کے معاملات طوائفوں کے معاملات سے آلودہ ہیں۔

                ہم اس بحث کو یہاں نہ اٹھائیں گے کہ بیان نمبر ۷ میں کچھ سچائی ہے کہ نہیں، فی الحال اتنا کہنا کافی بلکہ ضروری ہے کہ بیان نمبر ۷ میں ہم تعبیر کے دائرے سے بالکل باہر نکل گئے ہیں اور سستے قسم کے معلم اخلاق کے روپ میں جلوہ گر ہیں۔ لیکن لطف یہ ہے کہ ہمارا یہ بیان بھی تنقیدی قول کہلاتا ہے، یا تنقیدی قول کہلائے گا۔اور لطف یہ بھی ہے کہ نمبر ۷ پوری طرح سے عمومی بیان ہے۔لہٰذا اس کا اطلاق شعر زیر بحث کی طرح کے اور بھی فن پاروں پر ہو سکتا ہے۔

                اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کی روشنی میں حسب ذیل باتیں کہی جا سکتی ہیں:

                 وہ تعبیری فقرے جو کسی فن پارے کے طرز وجود کے بارے میں ہمیں کچھ بتاتے ہیں یعنی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ فن پارہ کن بنیادوں اور کن اصولوں پر قائم ہے، انھیں ہم ادبی یاوجودیاتی بیانات کہیں گے۔ کچھ تعبیری اقوال  ایسے ہیں جن میں فن پارے کی تعبیر تو ہوتی ہے، لیکن پھر اس تعبیر کی روشنی میں کچھ عمومی نتائج نکالے جاتے ہیں۔ایسے اقوال کو ہم فلسفیانہ یاعلمیاتی کہیں گے۔اس قسم کے اقوال میں وہ کیفیت زیادہ ہوتی ہے جسے تنقید کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زیادہ تر عمومی انداز کے ہوتے ہیں۔عمومی نتائج اپنی فطرت ہی کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں فن پارے کی فنی حیثیت سے سروکار بہت کم ہوتا ہے۔ ایک آخری بات یہ کہ عمومی نتائج نکالنے کی گنجائش ان فن پاروں میں زیادہ ہوتی ہے جن میں بیانیہ کا عنصر معتد بہ ہو، یا غالب ہو۔

                 ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن پارے کے بارے میں کچھ تعبیری تحریریں ایسی ہوں گی جوفن پارے کی ادبی یعنی وجودی حیثیت کے بارے میں اظہار خیال پر زیادہ تر مبنی ہوں گی۔ اور کچھ تعبیری تحریریں ایسی ہوں گی جن میں فن پارے کی فلسفیانہ یعنی علمیاتی حیثیت پر زیادہ کلام کیا گیا ہو گا۔اگر ہم اپنی پہلی مثال کو دھیان میں لائیں تو ہم دیکھ سکیں گے کہ فیض کی نظم ”صبح آزادی“ کے بارے میں  سردار جعفری  کے اقوال کی نوعیت علمیاتی ہے۔اس بات کی شکایت کے بعد کہ فیض نے اس نظم میں ”استعاروں کے پردے“  ڈال دیئے ہیں، نظم کا آخری مصرع نقل کر کے سردار جعفری نے لکھا:

                یہ بات تو مسلم لیگی لیڈر بھی کہہ سکتے ہیں…ڈاکٹر ساورکر اور گاڈسے بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ انتظار تھا جس کا وہ یہ سحر تو نہیں، کیونکہ اکھنڈ ہندوستان نہیں ملا جسے وہ بھارت ورش اور آریہ ورت بنانے والے تھے…پوری نظم میں اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا کہ سحر سے مراد عوامی آزادی کی سحر ہے اور منزل سے مراد عوامی انقلاب کی منزل… ]نظم  میں [ سب کچھ ہے لیکن نہیں ہے تو عوامی انقلاب اور عوامی آزادی، غلامی کا درد اور اس درد کا مداوا۔ایسی نظم تو ایک غیر ترقی پسند شاعر بھی کہہ سکتا ہے۔

                خلیل الرحمٰن اعظمی نے صحیح لکھا ہے کہ سردار جعفری کے یہ اقوال ”شعر و ادب پر ترقی پسند اصولوں کے میکانکی اطلاق کا ایسا نادر اور حیرت انگیز نمونہ ہیں جس کی مثال اردو تنقید کے سرمائے میں نہیں ملتی۔“ لیکن یہ معاملہ صرف ترقی پسند تنقیدی اصولوں کے میکانکی اطلاق کا نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ فن پارے کے بارے میں علمیاتی بیانات مرتب کرنے میں مزہ تو بہت آتا ہے لیکن جیسا کہ ہم اوپر میر کے شعر کے حوالے سے دیکھ چکے ہیں، ایسے حالات میں یہ خطرہ بھی ہمیشہ لاحق رہتا ہے کہ ہم تعبیر کے میدان سے نکل کر تنقید  کے دائرے میں داخل ہوں اور پھر وہاں سے جست لگا کر سماجی اور سیاسی فلسفہ طرازی کی بھول بھلیاں میں گم ہو جائیں۔

                میر کا مشہور شعر ہے   ؎

                                اے آہوان کعبہ نہ اینڈو حرم کے گرد

                                کھاؤ کسی کی تیغ کسی کے شکار ہو

                                                   (دیوان  چہارم)

                اس شعر کی تعبیر میں وجودیاتی اقوال بروے کار لائے جائیں تو کہا جائے گا کہ آہوان کعبہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو محفوظ زندگی گذارتے ہیں اور جن کے دل دردمندی سے خالی ہیں خواہ وہ  اتنے ہی مقدس کیوں نہ ہوں جتنے کہ محاذ کعبہ کے آہو ہوتے ہیں کہ جنھیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔محفوظ اور درد سے  خالی زندگی گذارنے والے ان لوگوں کی زندگی بے فائدہ ہے،بلکہ زندگی ہی نہیں ہے۔ انھیں چاہیئے کہ حرم کا محفوظ علاقہ، یعنی اپنی بے خوف و خطر زندگی  چھوڑیں۔ ان کو ضرور ہے کہ وہ کسی طرح اپنے دل میں درد مندی پیدا کریں اور دل کو دردمند بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنا دل کسی کو ہار دیں۔

                انھیں خطوط پرمزید اظہار خیال یوں ہو گا کہ یہ شعر جس تہذیب اورجس تصور کائنات کا پروردہ ہے وہاں کامیابی، اور خاص کر دنیاوی کامیابی کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اس تہذیب کا تقاضا تھا کہ انسانوں کے دل میں وہ نرمی اور حلیمی اور گداز اور شکستگی ہو جو انھیں ایک طرف تو انسان دوستی کے لائق بنائے اور دوسری طرف ان کے دل اور ان کے باطن کو حقیقت عالیہ کے جلوؤں کو حاصل کرنے کے قابل بنائے۔مزید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس شعر میں جس طرح کی کائنات کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اس میں اپنے حسن یا اپنے مواہب یا اپنے اکتسابات پر فخر کرنا (اینڈنا)اعلیٰ درجے کے فرد کی صفت نہیں ہے۔ اگر غرور کرنا ہی ہو تو تب غرور کرے جب دل کو درد سے بھر لیا ہو۔ مزید یہ کہا جاسکتا ہے کہ میر نے اسی خیال کو ذرا مختلف پہلو سے یوں لکھا ہے   ؎

                                کب تھی یہ بے جرأتی شایان آہوے حرم

                                ذبح ہوتا تیغ سے یا آگ میں ہوتا کباب

                                                                (دیوان اول)

                مندرجہ بالا شعر میں محفوظ زندگی گذارنے والا اینڈتا  اکڑتا نہیں،اور نہ غرور کرتا ہے۔ وہ بے جرأت ہے، یعنی اینڈنے والے آہو سے بھی بدتر ہے،کیونکہ اینڈنے والے آہو کو اپنی وقعت تو معلوم ہے۔ بے جرأت آہوکو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ ہے کیا۔ اسی لئے بے جرأت آہو ے حرم کے لئے سخت تر انجام تجویز کیا جا رہا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اسے توتیغ سے ذبح ہونا یا آگ میں کباب ہونا چاہیئے تھا۔ اینڈنے والے آہو کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کا غرور زیست ٹوٹے۔

                آل احمد سرور نے دیوان چہارم کے شعر پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:

                انسانیت کے لئے میر نے اپنے زمانے کی مروج اصطلاح عشق سے کام لیا ہے جو آدمی کو خود غرضی اور مفاد کے دائرے سے نکال کر ایک بڑے مقصد یا مشن سے آشنا کر دیتا ہے اور جس کی گرمی سے بے مقصد زندگی میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے جو آخر زندگی کے لئے ایک روشنی بن جاتی ہے۔

                ظاہر ہے کہ سرور صاحب کے اقوال وجودیاتی منطقے سے باہر نکل کر علمیاتی منطقے میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شعر کی تہذیبی اصطلاحوں کو فلسفیانہ یاسیاسی معنی دے رہے ہیں۔یہ  درست ہے کہ جو معنی انھوں نے بیان کئے ہیں وہ شعر زیر بحث ہی سے بر آمد ہوتے ہیں۔ ان کے بیان کردہ معنی اور ہمارے بیان کردہ معنی میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں، شرط صرف یہ ہے کہ آپ میر کی غزل کے شعر کو تمثیل یعنی  Allegory  فرض کرلیں۔ تمثیل میں ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم ایک شے(جو کبھی کبھی کسی تجربے یا احساس یا کیفیت کا نام ہوتی ہے، مثلاً ”مسافر“، یا”حوصلہ“) کو دوسری شے کا قائم مقام سمجھیں۔ یہاں سرور صاحب ”آہوان کعبہ“ کو ”روز مرہ زندگی کا مفاد پرست انسان“ اور ”تیغ کھانے، شکار ہونے“ کو ”عشق“ اور خود ”عشق“ کو ”بڑے مقصد یا مشن“ کی تمثیل قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ سرور صاحب کی تعبیر کی روشنی میں میر اٹھارویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب کے اردو شاعر کی جگہ بیسویں صدی کے عینیت پسند(Idealist) شاعر معلوم ہوتے ہیں۔

                سرور صاحب کا طریق کار ہمیں جس نتیجے تک پہنچاتا ہے وہ شعر کے تہذیبی چوکھٹے کے باہر سہی لیکن وہ شعر کے ساتھ بے انصافی نہیں کرتا کیونکہ جو نتیجہ انھوں نے نکالا ہے وہ شعر کے لسانی اور استعاراتی چوکھٹے کے باہر نہیں ہے۔اس نکتے کی مزید تفصیل کے لئے میرکا حسب ذیل شعر ملاحظہ ہو   ؎

                                ناچار ہو چمن میں نہ رہیئے کہوں ہوں جب

                                بلبل کہے ہے اور کوئی دن براے گل

                                                                (دیوان سوم)                              

                یہاں پہلی بات یہ کہنی ہے کہ ایک دن اچانک مجھے خیال آیا کہ یہاں ”براے گل“ قسمیہ بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی جس طرح ہم ”براے خدا“ کہتے ہیں اسی طرح بلبل ”براے گل“ کہہ رہی ہے۔ لیکن یہ خیال مجھے ”شعر شور انگیز“ لکھنے کے مدتوں بعد آیا۔ رومن یاکبسن کا اسی طرح کاایک واقعہ میں شروع میں درج کر چکاہوں۔ میرا گمان یہ ہرگز نہیں کہ مجھ میں اور رومن یاکبسن میں کوئی مشابہت ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فن پارے کے طرز وجود کے بارے میں غور و خوض کے امکانات شاید کبھی ختم نہیں ہوتے۔ اس کے برخلاف فن پارے کے بارے میں فلسفیانہ  یعنی علمیاتی اقوال کی حد بہت جلد آ جاتی ہے۔

                میر کے اس شعر کا وجودیاتی بیان حسب ذیل ہو گا:

                (۱)متکلم کو چمن میں ناچاری محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ناچاری کی حالت میں چمن میں نہ رہوں گا۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں براے گل کچھ دن اور رہ لو۔

(۲) متکلم دیکھتا ہے کہ بلبل ناچاری کی حالت میں چمن میں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بلبل چمن ہی میں رہے اور بحال زار نہ رہے۔ وہ بلبل کی حالت میں سدھار لانا چاہتا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ہوتی۔اب وہ ناچار ہو کر بلبل سے کہتا ہے کہ اس حال میں تو چمن میں نہ رہ۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں، اور کوئی دن براے گل رہ لوں گی۔

(۳) متکلم دیکھتا ہے کہ بلبل ناچاری کی حالت میں چمن میں ہے۔ وہ بلبل سے کہتا ہے کہ ناچار ہو کر چمن میں نہ رہ۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں، اور کوئی دن براے گل رہ لوں گی۔

(۴) متکلم اور بلبل دونوں ناچار ہیں۔ ناچاری سے تنگ آکر متکلم کہتا ہے کہ آؤ ہم دونوں یہاں سے چلے چلیں۔ بلبل جواب دیتی ہے، نہیں، اور کوئی دن براے گل رہ لیں۔

(۵) ”براے گل“ کا فقرہ حسب ذیل معنی رکھتا ہے: (۱)گل کی خاطر، یعنی بلبل (یا متکلم) اگر چمن کو چھوڑ دیں تو گل کی خاطر شکنی ہو گی۔ لہٰذ ا گل کی خاطر کچھ دن اور چمن میں رہ لیں۔(۲) گل کے انتظار میں۔ یعنی ابھی گل آیا نہیں ہے لیکن آبھی سکتا ہے۔(۳)گل کو دیکھتے رہنے کی خاطر۔ یعنی ناچاری اور زاری ہے تو کیا ہوا، گل کو دیکھ تو سکتے ہیں، اس کا قرب تو حاصل ہے، تقرب نہ سہی۔(۴) قسمیہ، یعنی متکلم کو بلبل قسم دیتی ہے کہ براے گل کچھ دن اور ٹھہر جاؤ۔یا قسم کھا کر کہتی ہے کہ گل کی قسم، ابھی کچھ دن اور رہوں گی۔

ظاہر ہے کہ یہ شعر عشق میں مصائب اور ابتلا کے باوجود ثابت قدمی اور رجا،معشوق سے دلی لگن، اور اپنی حالت کو سدھارنے کے جذبے کو انتہائی شور انگیز اور بڑی حد تک ڈرامائی انداز میں پیش کرتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔