فیصلے کی گھڑی

یہ تحریر 448 مرتبہ دیکھی گئی

گڈ بائی مسٹر چپس اب تو ایسے حفظ ہوچکا تھا۔ کچھ بچیاں اونگھ رہی تھیں کچھ آنکھوں میں آنسو لیے سن رہی تھیں کچھ بیزار تھیں اور چند ایک رٹو طوطا ٹائپ کے قلم کاغذ پر اس کا کہا ایک ایک لفظ لکھنے میں مصروف تھے ۔موسم بہت خوشگوار تھا ہلکی ہلکی ہوا کے ساتھ برستی بوندیں اور پھولوں کی مہک ، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو فضا میں پھیلی تھی ۔ ناول مسزکیتھرین چپنگ کی ناگہانی موت کا ڈرامائی موڑ لے چکا تھا ۔ مسٹر چپس کے کانوں میں محبوب بیوی کا آخری الوداعی سلام گونج رہا تھا اور پھر ٹن ٹن ٹن کی آواز سے کہانی کا سحر ٹوٹ گیا ۔سب سے زیادہ خوشی گھنٹہ بجنے کی کرن کو تھی ۔ پرس سنبھالتی گنگناتی کالج کے گیٹ کی طرف تیز تیز قدم چلتی چلی گئ ۔مہینے کا پہلا جمعہ تھا آج کے دن وہ آخری کلاس پڑھانے سے پہلے ہی سٹاف روم سے اپنی چیزیں سمیٹ لیتی اور پھر ٹن ٹن ٹن کی آواز کے ساتھ ہی سیدھی باہر کو بھاگتی ۔ جمعہ سے اتوار کی رات تک سجاول شاہ اس کا ہوتا ۔ ان ڈھائ دنوں میں اس کے ویران پڑے گھر میں بہار آجاتی ۔یوں جیسے چودھویں کا چاند آنگن میں اتر آیا ہو۔ وہ داسی بنی خدمت میں جٹی رہتی یہاں تک کہ پیر کا سورج طلوع ہوتا، سجاول شاہ صبح سویرے چلا جاتا ۔ کرن پھر سے اگلے مہینے کے پہلے جمعے کا انتظار شروع کر دیتی ۔ کیلنڈر پر ایک ایک تاریخ کاٹتی ستائیس طویل دن رات گزارتی ۔
سجاول شاہ اس کا شوہر تھا کرن اس کی پہلی محبت ، بچپن کی منگیتر اور لاڈلی بیوی تھی ۔تعلیم یافتہ اور حسین ترین عورت ۔
لیکن بدقسمت بنجر زمین جس کی گود کبھی ہری نہیں ہوسکتی تھی ۔ خاندان کے اکلوتے بیٹے کو وارث بھی چاہیے تھا اس لیے پہلی شادی کے پانچ سال بعد ہی دوسری شادی مجبوری بن گئ ۔ دوسری عورت کے لیے دوسرا گھر بھی بن گیا ۔ اس دوسرے گھر میں چراغ روشن ہوتے گئے اور ادھر تنہائ کے ساتھ ویرانی بڑھتی گئی ۔ عام سی لڑکی ماں بننے کے بعد دن بدن خاص ہوتی گئ ۔ کرن کا استحقاق گھٹتا گیا ۔بچوں کی مصروفیات اور ضروریات اس کے لیے انصاف سے طے کردہ وقت اور پیسے بھی کم کرتی گئیں ۔ کرن کے پاس صبر اور سمجھوتے کے سوا چارہ بھی تو نہ تھا ۔ پندرہ سال بعد اب مہینے کے ڈھائ دن ہی اس کے سونے گھر میں گھر کے مالک کی رونق ہوتی ۔
مسٹر چپس ، کالج اور کلاس رومز کو گڈ بائے کرتی کرن پھاٹک سے باہر لپکتی گئ پھر بچیاں نکلنے لگتیں تو ہجوم ہوجاتا ۔ بائیں طرف جہاں ہمیشہ موڑ سے ذرا پہلے سجاول کی گاڑی کھڑی ہوتی آج وہاں کوئ اور ہی کار تھی ۔ کھڑکی سے ہی آواز آئ
“پیچھے بیٹھ جاؤ آگے سامان رکھا ہے” ۔ اور پچھلی سیٹ تو تھی ہی نہیں وہاں صرف ایک میل خورہ نمدہ یا قالین کا پائیدان سا پڑا تھا کیچڑ اور تیل کے دھبوں سے بھرا ۔
” پکنک پر گئے تھے بچے یہاں گدہ ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں آگے بھی انہی کا سامان ہے ”
اسے متذبذب دیکھ کر سجاول نے صفائ دی ۔
” یہ بچوں کی گاڑی ہے نا بس جو ان کا دل چاہے سلوک کرتے ہیں اب دیکھو سیٹ ہی نکلوادی ہے ۔ تمہیں گھر چھوڑ دوں پھر ورکشاپ دے آؤنگا اس کی سروس وغیرہ ہوگی ”
وہ پدرانہ فخر اور محبت سے بتا رہا تھا
اور کرن منہ چھپائے بیٹھی سوچ رہی تھی
” ہائے لوگ مجھے گاڑی میں اکڑوں بیٹھا دیکھ رہے ہونگے ”
برستی بارش ، ہوا کی اٹھکھیلیاں ، پھولوں کی مہک ، حسیں سماں سب یک لخت ہی غائب ہوگئے ٹھنڈ کی شدت سے کرن کپکپا اٹھی ۔
” یار میری گاڑی بچے لے گئے ان کے ننھیال میں شادی ہے میں بھی کل جاؤنگا۔ تم آرام سے بیٹھو بس ابھی پہنچ جاتے ہیں گھر۔ ”
پاؤں پر پورے جسم کا وزن ڈالے کپڑوں کو گندگی سے بچاتی ،دروازے کا ہینڈل پکڑے اور ہر ہلکے سے جھٹکے پر ڈولتی کرن اپنی نظروں میں تنکے سے بھی ہلکی ہوچکی تھی ۔
اسے لگ رہا تھاجیسے پنجرے میں بند بے بس بندریا ہے اور دنیا تماشائ ۔احساس ذلت سے انکھیں بھر آئیں ۔کاش سجاول ذرا ساہی اس کی محبت ، وقار اور عزت نفس کا خیال کر لیتا قسمت کو دوش دیتے اچانک خیال آیا
” اسے کل بھی تو جانا ہی ہے تو پھر آج کیوں نہیں ! ”
اگلے سگنل پر اشارے کی بتی لال تھی گاڑی رکی دروازہ کھول کر وہ اتری اور سڑک کنارے کھڑے رکشہ کی طرف بڑھ گئ ۔ سجاول کے مڑ کر دیکھنے میں بتی سبز ہوچکی تھی گاڑی کھڑی رہنے پر پچھلی گاڑیوں کے بے تحاشا ہارن بجنے لگے ۔چھٹی کا وقت تھا نماز جمعہ کے لیے اذانیں بلند ہورہی تھیں ٹریفک کا سیلاب سا تھا جس میں وہ گاڑی بھی بہتی چلی گئ۔
شاید
سجاول نے رکنے کی کوشش ہی نہ کی ہو ۔وہ کسی ایسے ہی موقع کا منتظر ہو اوراب اس کی زندگی میں اس پچھلے پہر کی ٹھٹھرتی ہوئی کرن کی کوئ ضرورت بھی تو نہ تھی ۔
شاید
یہی دونوں کے لیے فیصلے کی گھڑی تھی ۔