فلسفہ کی تمام حدود تک رسائی کرتے انسان سے دوستی

یہ تحریر 2347 مرتبہ دیکھی گئی

میرا اُن سے پہلا تعارف ”ایکسپریس اخبار“ کا ہے، مجھے اچھی طرح یاد پڑتا ہے کہ میں دوران ایم اے سن 2011 میں اے بی ھال (بہاالدین زکریا یونيورسٹی،ملتان) میں رہتا تھا، میرا وہاں معمول یہ تھا کہ صبح صبح اُٹھ کر میں اپنے ہاسٹل کے داخلی دروازے کے اندرونی طرف لگے اخبارات کا مطالعہ کیا کرتا، ایک دن ایکسپریس اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے، نظر ایک ایسے کالم پر جا پڑی جس نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا، بعد از کالم پڑھنے کے دیر تک غوروفکر  میں کھویا رہا، سوچا اور فیصلہ کر لیا کہ اس انسان کے کالم  باقاعدگی سے مطالعہ کرنا ہیں۔ پھر کیا ہوتا ان کے کالم کا باقاعدہ انتظار رہتا، اخبار میں ان کا کالم چند ایک دنوں کے بعد آتا اور شدت سے انتظار رہتا کہ ان کا کالم آئے، انہماک سے پڑھوں اور عقل کی فکری خوراک لوں۔بس پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور شدید منتظر رہتا، کالم پڑھتا اور فکری حظ کا سامان لیتا رہتا۔ آپ کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ کالم پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کالم کو جمع بھی کرتا رہا، اس کے لیے میں نے اپنے آبائی شہر سے اپنے گھر پر مستقل طور پر اخبار لگوا لیا تھا اور یوں کالم جمع ہوتے گئے۔میرے پاس ان کے تقریباً تمام کالم محفوظ ہیں۔ایم اے مکمل ہوا تو پھر میں نے فیڈرل اردو یونيورسٹی اسلام آباد میں  ایم فل میں داخلہ لے لیا اور تب ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، جیسے تیسے ان سے رابطہ ہو گیا اور یوں ایک مبادی سطح پہ باقاعدہ تعلق کا آغاز ہوا، یہ تعلق سوشل میڈیا کا تھا اور ابتدا میں وہ کچھ مجھ سے خفا خفا رہے کیونکہ سوشل میڈیا کے تعلق کچھ مبہم ہوتے ہیں اور اس کی ایک وجہ کچھ یہ بھی ہو سکتی ہے اسلام آباد کی کسی یونيورسٹی میں ایک استاد ادریس آزاد صاحب تھے ان کا آپ سے کسی علمی موضوع پر اختلاف ہوا اور معاملہ اس نہج تک پہنچ گیا کہ الاماں الحفیظ۔۔۔

سوشل میڈیا پر موجود اکثریت نے ابتدا میں ادریس آزاد کو سپورٹ کیا اور جب ادریس آزاد نے اُن پر توہین رسالت کا بے بنیاد الزام لگایا تو پھر اکثر لوگوں کو ادریس آزاد کے اس فعل پر ملال بھی بہت ہوا کیونکہ ایک پڑھے لکھے بندے سے ایسے فعل قبیح کی ہر گز توقع نہ تھی۔خیر! ایک بات جس پہ مجھے فخر ہے کہ جب سب لوگ جناب عمران شاہد بھنڈر کو چھوڑ چکے تھے،اُس وقت صرف تین، چار لوگوں نے ہی اس مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیا، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اُن میں ایک اُن کی بیوی حبہ عمران، مرتضیٰ زاہد اور تیسرا راقم تھا۔ اس واقعہ کے دوران اور اسی وجہ سے وہ ابتدا میں مجھ سے بھی خفا خفا رہے بلکہ یہاں لفظ ”محتاط“ مناسب رہے گا، اس حوالہ سے وہ سچے بھی تھے کیونکہ ایسی سیچوئشن میں سب اجانب سے محتاط کا رویہ بہتر ہوتا ہے اور چونکہ میں اُن کے لیے ابھی تک اجنبی ہی تھا۔ پھر آئے روز ہمارا ناطہ، تعلق سے دوستی میں بلکہ دوستی سے یاری میں بدلتا گیا۔

 سن 2017 میں وہ یو کے سے پاکستان آئے اور صرف مجھ سے ہی یہاں آ کر رابطہ کیا اور اپنا بتایا کہ میں پاکستان آیا ہوں اور کہا میرے آبائی گھر گجرانوالہ آٶ۔ مجھ سے ملاقات بھی انہوں نے بڑی عجیب و غریب میں حالت میں کی اور مسلسل حالتِ استغراق میں جاتے رہے۔ خیر! ایک بات جو مجھے کبھی نہیں بھولے گی وہ یہ ہے کہ جب میں ان سے مل کر کرسی پہ بیٹھا تو وہ گھر تشریف لے گئے اور چند منٹ بعد ہاتھ میں ناشتہ کی ٹرے اُٹھائے کمرہ میں داخل ہوئے، ناشتہ کی ٹرے میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ ناشتہ کرو، ساتھ چائے بھی تھی اور وہ مجھے اپنے ہاتھوں سے کپ میں ڈال کر دی۔اس میں جو بات مجھے اکثر یاد آتی ہے، وہ تھا اُن کا ناشتہ پیش کرنے کا انداز، میں بیٹھا تھا اور وہ عظیم انسان میری خاطر مدارات میں کھڑا تھا۔ وہ لمحہ بہرحال بھلائے جانے والا نہیں۔ کچھ لہجے اور انداز ایسے ہوتے ہیں جنہیں الفاظ راہیں بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ انداز لفظوں کا ایک معنوی جامہ پہنے ہوئے تھا۔

درمیان میں کئی نشیب و فراز آئے مگر دوستی میں کوئی فرق نہ آیا،ایک واقعہ آپ کو سناتا چلوں اسی عرصہ میں ہم دونوں کے بیچ کسی بات پہ مناقشہ ہو گیا اور معاملہ اس قدر بگڑ گیا کہ میں نے ان کو فیس بک سے بلاک کر دیا اور ہمیشہ کے لئے ناطہ منقطع کر لیا۔ حبہ عمران کی فہم و فراست کام آئی اور لگی مسلسل مجھے منانے ، کوئی ایک ماہ گزر گیا اور میں مسلسل انکار ہی کرتا رہا، بالآخر ایک دن مجھے عمران بھائی کی کال آ گئی کہ یار ثقلین تم ایک ہی میرے مخلص بھائی ہو اگر مجھ سے غلطی ہو گئی ہے تو میں آپ سے معذرت کرتا ہوں اور آئندہ کبھی بھی آپ نے مجھ سے ناراض نہیں ہونا، میں اگر کبھی آپ سے لڑ بھی لوں تو مجھے بڑا بھائی سمجھتے ہوئے میری باتوں کو برداشت کیا کرو اور پھر کیا تھا مجھے دیر تک اپنے آپ میں شرمندگی ہوتی رہی کہ ایک اتنے بڑے عالم انسان نے مجھ کم علم سے معذرت کی۔ اس بات پہ غور کرو کہ ایک عالم بندہ جب کسی کم علم بندے سے معذرت کرتا ہے تو کیسا عجیب لگتا ہے؟۔

میری ان سے دوسری ملاقات نومبر 2019 میں قائداعظم یونيورسٹی ،اسلام آباد میں ہوئی، ایک دن پورا انہوں نے ہمارے ساتھ گزارا، میرے ساتھ حسین میر اور محسن کیانی بھی تھے۔وہ بہت بے مثال دن تھا، بے مثال کچھ یوں بھی بن گیا تھا کہ پورا دن فلسفہ و تاریخ پر گفتگو ہوتی رہی، شام کے وقت ہم بلیو ایریا میں تہذیب بیکرز پر کافی پینے گئے تو وہاں طلحہ بھی آ گئے،چند لمحات طلحہ کے ساتھ گپ شپ ہوئی، پھر محفل کو برخواست کرنے کا سوچا چونکہ انہیں دوسرے روز صبح  سویرے یو کے جانا تھا اور مجھے لاہور، یہ تھی ہماری دوستی کی مختصر کہانی۔۔۔۔