فسانہ عجائب بطرز دیگر

یہ تحریر 1584 مرتبہ دیکھی گئی

بعض کتابیں نصیبے ور ہوتی ہیں۔ انھیں میں رجب علی بیگ سرور کے “فسانہء عجائب” کو شمار کرنا چاہیے۔ نہ معلوم یہ فسانہ کس باسعادت ساعت میں لکھا گیا یا شائع ہوا اور اردو میں ایسا چمکا کہ انیسویں صدی میں داستان کے پیرائے میں لکھی گئی کوئی کتاب اس سے ٹکر نہ لے سکی۔ “طلسم ہوشربا” بے شک بڑا کارنامہ ہے لیکن “فسانہ عجائب” بہت پہلے لکھا گیا تھا اور اس کی مقبولیت میں فرق نہ آیا۔ لکھنؤ اس کے سحر کا اسیر رہا۔ اس کا ایک ثبوت فدا علی عیش کا “فسانہء دل فریب” ہے۔ بظاہر اس میں سرور کی تقلید کی گئی ہے مگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو عیش کی انفرادیت کا احساس ہوتا ہے۔ “فسانہء دل فریب” 1891ء میں مطبع نولکشور سے شائع ہوا تھا۔ حیرت ہے منشی نولکشور ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ عیش کی نثر کسی لحاظ سے احمد حسین قمر اور تصدق حسین کی نثر سے کم تر نہیں۔ علمی طور پر وہ دونوں مذکورہ داستان نویسوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ اگر ان سے بھی کوئی طویل داستان لکھوائی جاتی تو یقیناً اس کا شہرہ ہوتا۔ لیکن قمر اور تصدق نے نولکشور پریس پر ایسا قبضہ جمایا کہ ان کے ہوتے کسی اور کی لکھی داستان چھپ نہ سکی بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی کسی داستان نویس کی قسمت نہ جاگی اور سید میرن آبرو رضوی (تقریباً چالیس ہزار صفحے)، آرزو لکھنوی، محمد جان مریخ دہلوی، عاشق حسین بزم اور سید صفدر علی کی داستانیں نہ چھپیں نہ کسی نے پڑھیں اور بالآخر ضائع ہو گئیں۔


سرور کی طرح عیش نے بھی لکھنؤ کی تعریف سے قصے کا آغاز کیا ہے۔ وہ لکھنؤ تو نہیں رہ گیا تھا جس کے سرور نے گُن گائے تھے۔ نوابی کیا ختم ہوئی، خود مختاری ختم ہوئی۔ اس کے بعد 1857ء کی جنگ نے ہندوستان کی پرانی دنیا کو متزلزل کر دیا۔ عیش نے اپنے مسدس میں صاف کہا ہے کہ انگریزوں کے تسلط کے بعد جو پہلی تہذیب تھی، رونق تھی، زبان کی شستگی تھی، سب خاک میں مل گئی۔ لکھتے ہیں:
جس میں انگریزی کے الفاظ ہوں تقریر وہ ہے
جس میں انگریزی کا پروانہ ہو تحریر وہ ہے
اور یہ بھی کہا ہے: “جس میں انگریزوں کی نہ تعلیم ہو انسان نہیں۔” یہ مصرع آج ہم پر بخوبی چسپاں ہے۔
عیش کی کتاب میں وہ سب کچھ ہے جو داستانوں کا خاصہ ہے۔ بس ذرا مختصر پیمانے پر۔ عشق و عاشقی، فراق و وصال، جادوگروں اور جادوگرنیوں کی فتنہ پردازیاں، غیبی امداد، طلسمی مراحل کی شکست، سیر و سفر، جنگ و جدل کے نقشے، شادی بیاہ کے جشنوں کا بیان۔ جگہ جگہ مبالغے سے کام لیا گیا ہے کہ داستانوں میں غیرمعمولی پن کا اپنا مقام ہے۔ گرمی دکھائی ہے تو ایسی جس پر عرصہء محشر کا گمان ہو، سردی ایسی کہ جس کے سامنے قطبین کی زمہریری کیفیات مات ہو جائیں۔ مقفیٰ نثر کو ترجیح دی ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ جہاں بیانیہ دل چسپ اور رواں دواں ہے وہاں قوافی کی طرف خیال نہیں جاتا۔ ایک قصے کو پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ عیش نے الف لیلہ و لیلہ سے بھی فیض اٹھایا ہے۔ فدا علی عیش 1824ء یا 1825ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ فارسی اور عربی خوب جانتے تھے۔ شاعر بھی تھے اور خوش نویس بھی۔ 1899 میں انتقال ہوا۔ ان کا دیوان موجود ہے لیکن کبھی طبع نہیں ہوا۔ قلمی نسخہ قومی عجائب گھر، کراچی، کے کتب خانے میں ہے۔
سید علی سجاد نے اپنی تقریظ میں صحیح لکھا ہے کہ “معلوم ہوتا ہے کہ فسانہء عجائب ایک نیا، خوب صورت اور زیبا لباس پہن کر آیا ہے۔” یہ اچھا ہے کہ انیسویں صدی میں لکھی گئی کتابوں کو، جو عرصے سے کم یاب تھیں، دوبارہ، آج کل کے انداز میں، شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ اپنے اس ورثے کی بازیافت ہے جس سے ہم، دیدہ و دانستہ، غلفت برتتے رہے ہیں۔ بعض حضرات معترض ہوں گے کہ ان داستانوں میں نیا کیا ہے! ایک سی باتوں کی جگالی کی جاتی ہے۔ ضرورت انھیں غور سے پڑھنے کی ہے تاکہ ان کی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ خوبیوں کا اندازہ بھی ہو سکے۔ جہاں تک تکرار کا تعلق ہے تو بعض محقق دلائل سے ثابت کر چکے ہیں کہ کُل دس بارہ پلاٹ ہیں اور انھیں کو الٹ پلٹ کر سب ناول لکھے گئے ہیں۔
کتاب کی تدوین سلیم سہیل نے کی ہے۔ اس سے پہلے وہ ایک اور داستان “جادہء تسخیر” کو مرتب کر چکے ہیں۔ “فسانہء دل فریب” کی تدوین میں انھوں نے زیادہ سلیقے کا ثبوت دیا ہے اور مفصل فرہنگ شامل کرکے کتاب کی افادیت میں اضافہ کیا ہے۔ متن میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دراصل تدوین ایسا معاملہ ہے کہ اس میں مزاولت سے بہتری کے امکانات سامنے آتے جاتے ہیں۔ امید ہے کہ اب سلیم سہیل کسی اور داستان کی تدوین کی ذمے داری اٹھائیں گے۔
فسانہء دل فریب از فدا علی جان عیش
تدوین: سلیم سہیل
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور
صفحات: 346؛ چار سو پچاس روپیے