غزل

یہ تحریر 1045 مرتبہ دیکھی گئی

تیرگی چاند کو انعام وفا دیتی ہے
رات بھر ڈوبتے سورج کو صدا دیتی ہے

میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو
خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے

کوئی سایہ تو ملا دھوپ کے زندانی کو
میری وحشت تری چاہت کو دعا دیتی ہے

کتنی صدیوں کے دریچے میں ہے بس ایک وجود
زندگی سانس کو تلوار بنا دیتی ہے

قفس رنگ میں دن رات وہی پیاس کا درد
آگہی بھی مجھے جینے کی سزا دیتی ہے