غزل

یہ تحریر 843 مرتبہ دیکھی گئی

دلِ خوش خواب ہے گُزرے زمانوں میں کہ تم ہو
زرِ کم یاب ہے اِن خاک دانوں میں کہ تُم ہو

لیے جاتا ہے نامعلوم منزل کی طرف کون
ہَوا ہے اپنے خستہ بادبانوں میں کہ تُم ہو

یہ کیا اَسرار ہے یہ کون ڈھوٖنڈے ہے کسی کو
مِری آواز ہے خالی مکانوں میں کہ تُم ہو

ِنکل آئے کِسی قیدِ مکان و لامکاں سے
نہیں کوئی ہم ایسے سخت جانوں میں کہ تُم ہو

کوئی آواز دیتا ہے رہِ آیندگاں سے
محبت مُنتظِر اگلے جہانوں میں کہ تُم ہو