غزل

یہ تحریر 889 مرتبہ دیکھی گئی

کِس کو ملنی ہے یہاں کس پہ فضیلت نہیں طے
سَر کو رہنا ہے کہ وِحشت کو سلامت نہیں طے

چلنے لگتا ہوں تو پیروں سے لپٹتی ہے زمیں
پیشِ پا آن پَڑی کیسی مُسافت، نہیں طے

بِکنے والے ابھی ایک ایک کا مُنہ تکتے ہیں
دام لگتے ہیں ابھی شہر کی قسمت نہیں طے

ہاں تہِ تیغ تو رکھا ہے گُلو میں نے بھی
جیتنا ہے کہ اٹھانی ہے ہزیمت، نہیں طے

آتِش انگیز بھی ہے اور اَلَم اُفتاد بھی دل
کشتِ باروُت ہے یا قریہئ آفت نہیں طے

صبر اے سنگ ِستم، حلقہء رنداں میں فقیر
پیر رکھتا ہے ابھی رنگِ ملامت نہیں طے

دستِ سفّاک بھی کاسہ بھی عطا ہے مُجھ کو
پالنے والے مِرے رزق کی صُورت نہیں طے

خُوں بہاتا ہے کبھی لُطف بکف پھرتا ہے
اُس کو اِس شہر سے نفرت ہے کہ اُلفت نہیں طے