غزل

یہ تحریر 1348 مرتبہ دیکھی گئی

زمیں کی چال نہ دورِ قمر سمجھتا ہوں
مگر یہ بات کہ رمزِ ہنر سمجھتا ہوں
خزاں کو فصلِ بہاراں سے کیوں کروں موسوم
خزف کو خاک، گہر کو گہر سمجھتا ہوں
یہ سوچنا مرا، باعث ہے میرے ہونے کا
اگر یہ عیب ہے اس کو ہنر سمجھتا ہوں
تو کیا ہے گردشِ سیّارگاں سے ربط مجھے؟
کہ زندگی کو سفر در سفر سمجھتا ہوں!
یہ خود فریبی کی صورت ہے یا حقیقتِ حال
سیہ شبی کو بیاضِ سحر سمجھتا ہوں
غلط نہیں کہ بہت سے سخن ہیں ایسے جنھیں
زباں پہ لا نہیں سکتا مگر سمجھتا ہوں
گدائے شہر بس اب توڑ ڈال کاسہء ننگ
تُو ایک عمر سے ہے در بدر، سمجھتا ہوں!