برف کے پگھلنے میں کتنی دیر لگتی ہے
دھوپ کے نکلنے میں کتنی دیر لگتی ہے
فاصلہ ہی کتنا ہے تیرے اور میرے بیچ
دل سے دل کے ملنے میں کتنی دیر لگتی ہے
ہجرتوں کے موسم میں درد کے شگوفوں کو
پھول بن کے کھلنے میں کتنی دیر لگتی ہے
زلزلے کی شدت سے دھرتی کانپ جاۓ تو
پربتوں کے ہلنے میں کتنی دیر لگتی ہے
زندگی ہماری بھی باٹ برف کے جیسے
اور یہ پگھلنے میں کتنی دیر لگتی ہے
غزل
یہ تحریر 1274 مرتبہ دیکھی گئی