غزل

یہ تحریر 975 مرتبہ دیکھی گئی

کہوں کیا ان دنوں کیا حالت مَے خوار ہے ساقی
ہے ساغر سامنے پینے سے جی بیزار ہے ساقی

وہ ذوقِ مے پرستی بادہ نوشی شعلہ آشامی
اب اس کا ذکر میرے سامنے بے کار ہے ساقی

ترے آدابِ مے خانہ سے ان رندوں کو کیا نسبت
نگاہِ بے طلب ہی مایہ پندار ہے ساقی

طبیبوں نے ہزاروں اپنے نشتر آزمائے ہیں
مگر یہ زندگی بیمار کی بیمار ہے ساقی

اجازت دے تو اب سجدہ کروں نمرود کو میں بھی
کہ نوری دور بدلا اب زمانِ نار ہے ساقی

کسک کی زندگی قائم ہے طوفاں خیز موجوں سے
مرا ساحل پہ جینا دو گھڑی دشوار ہے ساقی

گیا وہ دورِ مستی اور ہے اب ہنگام ہشیاری
ہماری زندگی اب فتنہ بیدار ہے ساقی