غزل

یہ تحریر 1484 مرتبہ دیکھی گئی

ہو گئی خاموش لَو گل ہو گیا سب کا چراغ
ہے مگر روشن ستونِ حرف پر میرا چراغ
اب ہوا چاروں طرف پھیلا رہی ہے روشنی
رکھ دیا ہے میں نے اس کے جسم میں اپنا چراغ
اب اسی تاریک شب کے ساتھ رہنا ہے مجھے
کیا ستارہ کیا کرن مہتاب کی کیسا چراغ
اور تھوڑی دیر تیرے ساتھ ہے یہ روشنی
رات اب جانے کو ہے بجھنے کو ہے تیرا چراغ
شب گزیدہ شہر کی دریا دلی تو دیکھیے
روشنی مانگی تو ہر گھر سے نکل آیا چراغ
پیش کرنا تھا کوئی تحفہ حضورِ شب مجھے
سو ہوا میں خاک اپنی خاک سے ڈھالا چراغ
ہم ازل سے روشنی تقسیم کرتے آئے ہیں
دے دیا دشمن کو بھی اس نے اگر مانگا چراغ
ہر طرف ہے سیلِ نور اور نور میں سیلِ سرور
جل رہا ہے خانہء دل میں ترے تن کا چراغ
شام کوئی شمع رو پہلو میں بیٹھا ہے انیسؔ
رات یہ کیوں جسم تیرا ہو گیا سارا، چراغ