سر فروشوں نے بھی کب سر دیے اس معرکے میں
ہم نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے اس معرکے میں
ہول ایسا تھا ہوئے جاتے تھے پِتّے پانی
شیرِ نر سوتے میں نر ڈر ڈر دیے اس معرکے میں
خون بہا کن کے عوض مانگتے پھرتے ہو یہاں
تم نے تو ریت میں سر کر دیے اس معرکے میں
اکثریت نے معاً پھینک دیے تھے ہتھیار
چند ہی سر پھر مر کر دیے اس معرکے میں
غزل
یہ تحریر 1264 مرتبہ دیکھی گئی