غزل

یہ تحریر 1185 مرتبہ دیکھی گئی

سینہ افروزی ہے اور خارا شگافی ہے میاں
سخن و صوت و صدا کارِ اضافی ہے میاں
ہفت اقلیم کی خواہش مجھے، توبہ توبہ
فقط اک سلطنتِ لفظ ہی کافی ہے میاں
شعر کے رمز و ہنر کا میاں کیا پوچھتے ہو
کھیل لفظوں کا ہے اور کارِ قوافی ہے میاں
عمر جتنی بھی بڑھی، کم بھی ہوئی اتنی ہی
جمع و تفریق کا سب کھیل اضافی ہے میاں
حرف معزول ہوئے، بابِ دعا بند ہوا
اب معافی ہے میاں اور نہ تلافی ہے میاں
اصل سرمایہ تو غارت ہوئے مدت گزری
اب جو مہلت ملی ہے صرف اضافی ہے میاں
کیوں گھُلے جاتے ہو دُکھ درد سے اولے کی طرح
ربِ افلاک تمھارے لیے کافی ہے میاں
دل میں جو بات ہو آتی ہے لبوں پر وہی بات
کھوٹ سے پاک مِرا مشربِ صافی ہے میاں