جوں شمع آج اس کی محفل ہے اور میں ہوں
یعنی مقابلے میں قاتل ہے اور میں ہوں
غم خوار کون اس کا دُور از دیار جو ہو
صحرائے بے کسی کی منزل ہے اور میں ہوں
تجھ کو تو کیا کہوں اب، اے چشم، دیکھ لینا
جو کچھ کیا سو اس نے، یہ دل ہے اور میں ہوں
لہریں گنوں ہوں بیٹھا، بہلاؤں کس سے جی کو
دریا ہے اور طوفاں، ساحل ہے اور میں ہوں
پاس اپنے کون، فدوی، دل ہے سو زخم خوردہ
پہلو میں میرے یہ ہی گھائل ہے اور میں ہوں
غزل
یہ تحریر 1163 مرتبہ دیکھی گئی