غزل

یہ تحریر 3472 مرتبہ دیکھی گئی

گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہِ یار سلامت ہزار مے خانے
شریکِ خلوتِ محبوب ہے یہ تنہائی
فروغِ انجمنِ ناز ہیں یہ ویرانے
مری شراب میں زہرِ خود آگہی تو نہ تھا
بدل دیے ہیں کسی خوش نظر نے پیمانے
ابھی تو دل ہے اسیرِ طوافِ بت خانہ
طوافِ دل بھی کسی دن کریں گے بت خانے
چراغِ دیروحرم کا فقط بہانہ ہے
خود اپنی آگ میں جل جاتے ہیں یہ پروانے
یہاں بھی رحمتِ پیرِ مغاں سے ہوں محروم
وہاں کی بات بھی اے واعظو خدا جانے
گناہِ پاکیِ داماں ہوا معاف روش
کیا ہے یاد کسی غیرتِ زلیخا نے