غزل

یہ تحریر 1150 مرتبہ دیکھی گئی

دل وسوسوں میں اِس طرح اُلجھا ہوا لگا

یہ آئینہ غبار میں لپٹا ہوا لگا

غفلت کدے میں دہر کے کی سیر چار سُو

جو بھی ملا وہ نیند میں چلتا ہوا لگا

تاروں پہ بھی غنودگی چھائی ہوئی لگی

پچھلے پہر کا چاند بھی سویا ہوا لگا

ہم کارواں سمجھ کے ادھر آ گئے مگر

ہر شخص اِس ہجوم کا بچھڑا ہوا لگا