طوفان سہی تیز مگر جانا ہے اُس پار
اے طبعِ خطر جُو تجھے بہلانا ہے اُس پار
بس یوں ہے کہ بے نام کشش کھینچ رہی ہے
اب کون کہے باغ یا ویرانہ ہے اُس پار
اُمڈی ہیں ہر اک سمت سے پھر تُند ہوائیں
اِن جلتے چراغوں کو بھی پہنچانا ہے اُس پار
ساحل کے درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر
اک گیت پرندوں کے لیے گانا ہے اُس پار
کچھ بھید سا ہے جس کی خبر لانی ہے ہم کو
یا دور خلاؤں میں بکھر جانا ہے اُس پار