غزل

یہ تحریر 1051 مرتبہ دیکھی گئی

یہ بجا ہے بسیں گی نئی بستیاں اور اُن میں نئے لوگ بھی آئیں گے

پوچھتے ہیں مگر آج کل دل جلے: “صاحبو، کیا زمیں کو بچا پائیں گے”

ان ہواؤں میں گھلتی ہوئی آگ سی ، موسموں کا یہ اُلجھا ہوا سلسلہ

کیا جزیروں سے اُٹھیں گے شعلے کبھی ، کیا یہ گلزار سب ان میں جل جائیں گے؟

دیکھتے تھے کسی چھت سے اُٹھتا دھواں ، لگ رہا تھا ہمیں زندگی کا نشاں

کیا خبر تھی دھواں اتنا بڑھ جائے گا گھر تو کیا شہر بھی اس میں چھپ جائیں گے

کب سے نظریں ہیں اپنی فلک پہ جمی ، جانے پہنچیں گے کب وہ پرندے یہاں

دیکھیے لائیں گے شاخِ زیتون وہ یا چڑھے پانیوں کی خبر لائیں گے

اپنے اندر بھی اب جھانک کر دیکھ لیں ، کیا خبر وہ اُجالے یہیں پر ملیں

یوں کہاں تک پھریں گے یہاں کُو بکُو ، یوں کہاں تک اندھیروں سے ٹکرائیں گے