خواب کی لہروں نے دیکھا تھا کنارا
شوق خود ہی بن گیا تھا اک ستارا
اک ہجوم اپنے تغافل میں رواں ہے
ایک بچہ ردی چنتا ہے بچارا
دشت سے نکلوں تو آگے باغ ہوگا
اک امید اس خوف میں اپنا سہارا
پھول اس چہرے کا آنکھوں میں کھلے گا
دیکھنا ہے خواب میں اس کو دوبارا
عشق کے اس کھیل میں کس کو خبر ہے
ہوش والو کون جیتا کون ہارا