غزل

یہ تحریر 353 مرتبہ دیکھی گئی

آئنہ دیکھتے رہنے سے بھلا کیا ہوگا
عکس رخ اس کا تو آنکھوں سے جھلکتا ہوگا

دور تک پھیلے اندھیرے میں کوئی کیا دیکھے
دیکھنا چاہو تو اس شب سے گزرنا ہوگا

آتشِ خواب کے جلتے ہوۓ منظر میں کہیں
اپنے ہونے سے نہ ہونے کا تماشا ہو گا

غیر محسوس روانی میں یہ دل کا دریا
ایک ہی موج میں گھٹتا کبھی بڑھتا ہو گا

گرد آفاق ستاروں پہ کہاں جمتی ہے
دل کے صحرا میں ترا رنگ نہ میلا ہوگا

دیکھنے دیتی نہیں اب تو تھکن آنکھوں کی
ہم جسے دیکھ رہے تھے کوئی رستہ ہوگا