آئنہ دیکھتے رہنے سے بھلا کیا ہوگا
عکس رخ اس کا تو آنکھوں سے جھلکتا ہوگا
دور تک پھیلے اندھیرے میں کوئی کیا دیکھے
دیکھنا چاہو تو اس شب سے گزرنا ہوگا
آتشِ خواب کے جلتے ہوۓ منظر میں کہیں
اپنے ہونے سے نہ ہونے کا تماشا ہو گا
غیر محسوس روانی میں یہ دل کا دریا
ایک ہی موج میں گھٹتا کبھی بڑھتا ہو گا
گرد آفاق ستاروں پہ کہاں جمتی ہے
دل کے صحرا میں ترا رنگ نہ میلا ہوگا
دیکھنے دیتی نہیں اب تو تھکن آنکھوں کی
ہم جسے دیکھ رہے تھے کوئی رستہ ہوگا