غزل

یہ تحریر 433 مرتبہ دیکھی گئی

کوئی یقین کرے نا کرے یہی سچ ہے
جو دل کے غار سے پھوٹی وہ روشنی سچ ہے

یہ سب پڑاؤ محض الجھنیں ہیں راستے کی
کہ زندگی ہے حقیقت نہ موت ہی سچ ہے

میں آدمی ہوں خدارا مجھے خدا نہ بنا
کہ میرے پاس کوئی جھوٹ نہ کوئی سچ ہے

پکارتی رہے دنیا مگر نہیں سنیں گے
کہ ہم سے لوگوں کو بس دل کی بات ہی سچ ہے

نہ دن کی کوئی حقیقت نہ شب کا کوئی مقام
یہ زیست شام کا لمحہ ہے، ملگجی سچ ہے