غزل

یہ تحریر 311 مرتبہ دیکھی گئی

o

شکوہ غم وہ کرے جو رنج کا خوگر نہیں
میرا چاکِ سینہ تو محتاجِ بخیہ گر نہیں

میں مسافر ہوں رکا ہوں تھوڑے دن کے واسطے
میں یہاں رہتا تو ہوں لیکن یہ میرا گھر نہیں

بھید ہے یہ بھی کوئی عشوہ طرازی کا تری
خواب کے اندر ہے جو وہ خواب کے باہر نہیں

اور کچھ دلکش نہیں اس نوبہارِ ناز سے
اس کی چشمِ سرمہ سا سے اور کچھ بہتر نہیں

دیکھ لے جی بھر کے اس کے حسنِ سینہ سوز کو
اور جو کچھ ہے بجز یک مشتِ خاکستر نہیں

اک وہی ہے اس جہاں میں دوسرا کوئی نہیں
اور کوئی نازنیں کوئی پری پیکر نہیں