پہلے ہوتا تھا ایک گھر اپنا
نام ہے اب تو دربدر اپنا
دل کی ہر بات کیجئے جس سے
کون ہے یار اس قدر اپنا
بات جیسی بھی ہے اب آئے گا
شاخ ہر لفظ پر ثمر اپنا
راہ سنسان ہو کہ ہو آباد
ساتھ رہتا ہے ایک ڈر اپنا
زندگی کوہ سخت ہے جس پر
کام آتا نہیں ہنر اپنا
چاہتا ہوں اب اس کے کوچے میں
ذکر ہو شام اور سحر اپنا
دل کے دریا میں ڈوب جانے کو
لہر اپنی ہے اور بھنور اپنا
پہلے سمجھا تھا جس کو درد دل
بن گیا اب وہ درد سر اپنا
اب وہ آنکھیں کہاں جو دیکھ سکیں
خواب تھا جن سےمعتبر اپنا