غزل

یہ تحریر 471 مرتبہ دیکھی گئی

o

وہ عجب جگہ تھی یہیں کہیں جہاں خواب رنگِ بہار تھا
وہیں کاخ و کو وہیں مشک بو کیا یمین تھا کیا یسار تھا

کسی شعلہ فام کے روبرو نہ کلام تھا نہ ہی گفتگو
مجھے ہوش تھا جو خموش تھا یہ الگ کہ سینہ فگار تھا

مری چشم نم تھی جھکی رہی مری نبض جیسے رکی رہی
تری بزمِ ناز میں بیٹھنا میرے حوصلوں کا شمار تھا

کبھی بارِ غم سے میں جھک گیا کبھی چل پڑا کبھی رک گیا
کبھی دل دہی کبھی کج روی کسی پل نہ مجھ کو قرار تھا

وہی شعلہ رو وہی سیم تن وہی شاخِ گل وہی گل بدن
وہی رنگ و بو وہی جستجو وہی حسن لالہ عذار تھا

وہ ملا مجھے کئی روپ میں کبھی چھاؤں میں کبھی دھوپ میں
مجھے چوم کر وہ نکل گیا میں کھڑا جو برسرِ دار تھا

وہ جو اسم اسمِ عظیم تھا وہ مرے لہو میں مقیم تھا
ترے اپنے آپ کے بھید میں تیری دلبری کا وقار تھا

کسی عکسِ رنگ قلیل میں کسی آبِ سبز کی جھیل میں
وہ گلو میں تھا وہ لہو میں تھا وہی تیغِ تیز کی دھار تھا

اسے دیکھنے کی ہوس لیے میں نے چاروں سمت سفر کیے
کہیں رنگ و بو کا وہ بھید تھا کہیں موسموں کا سنگار تھا

کوئی آرزو نہ ہوس رہے، نہ جنوں نہ تارِ نفس رہے
اسے ایک بار میں دیکھ لوں جو نگاہ و دل کا قرار تھا