غزل

یہ تحریر 625 مرتبہ دیکھی گئی

کہاں وصال کے پہلو میں خواب سوتے ہیں
بس اس خیال کے پہلو میں خواب سوتے ہیں

میں اُس جگہ تھا جہاں روشنی کا مصدر ہے
وہاں جمال کے پہلو میں خواب سوتے ہیں

میں ماہ و سال کے بستر سے گرد کیا جھاڑوں
کہ ماہ و سال کے پہلو میں خواب سوتے ہیں

کوئی پکار کے کہتا تھا رات بسمل کو
ذرا سنبھال کے! پہلو میں خواب سوتے ہیں

یہ زندگی کا مسافر عجب نشے میں ہے
کہ اس کی چال کے پہلو میں خواب سوتے ہیں

جہاں کمال کی نوبت ہو دھوم پر زاہد
وہاں زوال کے پہلو میں خواب سوتے ہیں