کس کس خبر کو خواب سے وہ جوڑ کر گیا ہے
ہر موڑ پر ہی اپنا نشاں چھوڑ کر گیا ہے
مجبور سارے پوچھتے پھرتے ہیں دوسروں سے
زنجیر کیسے پاوں کی وہ توڑ کر گیا ہے
کھلتا نہیں ہے کون سا پتھر تھا راستے میں
جس کے ستم سے ہار کے سر پھوڑ کر گیا ہے
کیسے کہوں کسی سےکہ وہ خوش ادا نہہں تھا
میرے تو ہر خیال کا رخ موڑ کر گیا ہے
جاگے نہیں ہو تم ہی تو اس کا قصور کیسا
وہ تو تمام شہر کو جھنجھوڑ کر گیا ہے