غزل

یہ تحریر 527 مرتبہ دیکھی گئی

کس کس خبر کو خواب سے وہ جوڑ کر گیا ہے
ہر موڑ پر ہی اپنا نشاں چھوڑ کر گیا ہے

مجبور سارے پوچھتے پھرتے ہیں دوسروں سے
زنجیر کیسے پاوں کی وہ توڑ کر گیا ہے

کھلتا نہیں ہے کون سا پتھر تھا راستے میں
جس کے ستم سے ہار کے سر پھوڑ کر گیا ہے

کیسے کہوں کسی سےکہ وہ خوش ادا نہہں تھا
میرے تو ہر خیال کا رخ موڑ کر گیا ہے

جاگے نہیں ہو تم ہی تو اس کا قصور کیسا
وہ تو تمام شہر کو جھنجھوڑ کر گیا ہے