غزل

یہ تحریر 544 مرتبہ دیکھی گئی

o
میں چلا تھا گھر سے ترے لیے تو مرا عجیب سا حال تھا
مری راہ میں کڑی دھوپ تھی مرے دل میں گہرا ملال تھا

مجھے تجھ سے کوئی گِلہ بھی تھا مری رہ میں دشتِ بلا بھی تھا
مری چشمِ نم میں تھی جستجو مرے لب پہ کوئی سوال تھا

کہیں خاک و آب کی وسعتیں کہیں کو ہساروں کی ہیبتیں
مرے دل میں کوئی خلش سی تھی مرے دل میں کوئی خیال تھا

کہیں ابرِ سبز کی چادریں کہیں ہلکی ہلکی سی بارشیں
کہیں نیلے پانی کی وسعتیں کہیں آب و گل کا وصال تھا

کہیں مہ وشوں کا قیام تھا کہیں چشم و لب سے کلام تھا
کہیں بے حجاب تھے شعلہ رو کہیں حشمِ جاہ و جلال تھا
میں سفر میں تھا نہ حضر میں تھا نہ کہیں خیال و خبر میں تھا
کوئی اور ہی پس و پیش تھا کوئی اور ہی وہ وبال تھا

کبھی مجھ میں اس میں بنی رہی کبھی بے سبب ہی ٹھنی رہی
کبھی میں تھا تابشِ تند خو کبھی وہ بھی شعلہ خصال تھا

کہیں بال وپر تھے کھلے ہوے کہیں لب سے لب تھے ملے ہوے
کہیں صبح و شام کا ہجر تھا کہیں روز و شب میں وصال تھا

کہیں دل کے باغ کھلے ہوے کہیں ہونٹ جیسے سِلے ہوے
کہیں آرزووں کی رونقیں کہیں خواہشوں کا زوال تھا

وہ عجیب تھا کوئی مستقر کوئی رہ گزر نہ کوئی سفر
کہیں شرق و غرب کی تھی خبر نہ جنوب تھا نہ شمال تھا