غزل

یہ تحریر 577 مرتبہ دیکھی گئی

چلتے چلتے آ نکلا ہے شہر میں لڑکا گاؤں کا
دھوپ بہت دیکھی ہے اس نے متلاشی ہے چھاؤں کا

مستقبل کی ریت نے اتنا چمکایا ہے رستے کو
منزل تک اب لے جاۓ گا مجھ کو چھالا پاؤں کا

صحراؤں میں پھرتے پھرتے کتنے موسم گزر گۓ
دل چاہے اب پانی پی لوں تیرے سب دریاؤں کا

آنکھ بھٹکتے خوابوں کا وہ دشت ہے جس میں ہوتا ہے
روز تماشا جلتی بجھتی ان دیکھی دنیاؤں کا

پہلے دل کے پیڑ پہ عامر پنچھی ہنستے گاتے تھے
ٹہنی ٹہنی پر رہتا ہے اب تو خوف ہواؤں کا