غزل

یہ تحریر 488 مرتبہ دیکھی گئی

o

جو بھی ہونا ہے بہت پہلے مقرر ہو چکا ہے
خیر میں شر اور شر میں خیر کا گھر ہو چکا ہے

میرے ہونے کی نشانی صرف دو آنکھیں بچی ہیں
ورنہ میرا جسم تو صدیوں سے پتھر ہو چکا ہے

موسموں میں بھی عجب اک کج ادائی آگئی ہے
سردیاں اتری نہیں جبکہ دسمبر ہو چکا ہے

تم اگر بدلے ہو تو میں بھی وہ پہلا سا نہیں ہوں
ہے عیاں چہروں سے جو کچھ اپنے اندر ہو چکا ہے

دیکھ سکتا ہوں تجھے لیکن میں چھو سکتا نہیں ہوں
اب تو میرے واسطے عرشِ منور ہو چکا ہے