غزل

یہ تحریر 577 مرتبہ دیکھی گئی

رات پڑی ہے صبح میں کل کی، ہجر سہیں یا سو جائیں
عیاری کا خول چڑھائیں یا دیوانے ہو جائیں

ہم تم وحشی اندر سے ہیں، تہذیبوں کے مارے ہوئے
اِس دنیا کو آگ لگائیں اور جنگل میں کھو جائیں

دکھ کا شہد نہ کھایا جھنوں نے، حیف ہے اُن تقدیروں پر
آؤ اے غم کے سلطانوں، اِن پر بھی تو رو جائیں

ذہن کی کشتی تیر رہی ہے اندیشوں کی لہروں پر
ملّاحوں کے پاؤں پڑیں یا اپنا آپ ڈبو جائیں

جن کو دیکھنے کے لیے اتریں اونچے فلک سے تارے بھی
روشنی والے جو پھل لائیں، ایسے تِنکے بو جائیں

یار ہمارا مانگ رہا ہے خود سے عشق ثبوتوں سے
رسوائی ہے جو نہ جائیں اور ہنسی ہے جو جائیں

ہم کو پار اترنا ہوگا، دنیاؤں کی سرحد سے
اور طرف کے رستوں سے بھی، جاتے جاتے ہو جائیں