غزل

یہ تحریر 601 مرتبہ دیکھی گئی

یا رب تری زمین تو صدموں سے بھر گئی
روشن سے دن میں دشت کی وحشت اتر گئی

تعبیر تھی جو عاقل و باصر نہ رہ سکی
تدبیر اب کے ایک بھی کب کارگر گئی

مفلس کے خواب بھوک میں ہجرت نہ کر سکے
زنجیرِ عدل ڈر کے ہی رزائن (resign )کرگئی

ایسی تھی کھینچ تان کہ سب خواب پھٹ گئے
ایسی خبر تھی خود سے بی جو بے خبر گئی

حالانکہ حکم تھا کوئی گھبرائے گا نہیں
وعدے کتاب میں لکھے خلقت سنور گئی

کیسا عمل تھا پار بھی اترا نہ جا سکا
دیوار اپنے ڈھب سے ہی ہر اک نگر گئی

ان تذکروں میں ایک بھی مخلص نہ مل سکا
اس داستان خلق میں مخلوق مر گئی

سعدیہ بشیر کی دیگر تحریریں