غزل

یہ تحریر 532 مرتبہ دیکھی گئی

o

ذرا سا تھا مگر بے انتہا کیسے ہوا تھا
میں مشتِ خاک سے بادِ صبا کیسے ہوا تھا

تو موجِ تند سے بادِ صبا کیسے ہوا تھا
میں مشتِ خاک سے ارض و سما کیسے ہوا تھا

انا میری تو جیسے ایک بحرِ بے کراں تھی
ترے آگے میں دستِ التجا کیسے ہوا تھا

مری فطرت میں جتنی بھی کجی ہے وہ مری ہے
میں اپنے واسطے اپنی سزا کیسے ہوا تھا

تری تصویر میں لوحِ ہوا پر لکھ رہا تھا
تجھے اس بات کا لیکن پتا کیسے ہوا تھا

اگر یہ معجزہ میری نگاہوں کا نہیں تھا
تمھارا رنگ، رنگِ شعلہ سا کیسے ہوا تھا

تجھے تو بات کرنی بھی نہیں آتی تھی پہلے
تو پھر تو اتنا خوش کن، خوش نوا کیسے ہوا تھا

اگر ہم ایک جسم و جان تھے تو کیا ہوا تھا
میں تجھ سے اور تو مجھ سے جدا کیسے ہوا تھا

میں دل کی راج دھانی تجھ کو پہلے دے چکا تھا
تو جسم و جان کا فرماں روا کیسے ہوا تھا

تو اک قطرے سے بحرِ بے کراں کیسے ہوئی تھی
میں تیرے واسطے ابر و ہوا کیسے ہوا تھا

صدائیں دے رہی تھی تو مجھے خاموشیوں سے
میں تیرے واسطے صبحِ صدا کیسے ہوا تھا

ازل سے میں تری آغوش میں سمٹا ہوا تھا
اس ارضِ خاک پر میں رونما کیسے ہوا تھا

ترا چہرہ تو ساری رات میں پڑھتا رہا تھا
اگر یہ خواب تھا تو رت جگا کیسے ہوا تھا

مجھے تو تھی ازل سے آرزوئے شیشہ سازی
مرے شیشے میں تو جلوہ نما کیسے ہوا تھا

تو میری عاشقی کی انتہا کیسے ہوئی تھی
میں اپنی آرزو کی ابتدا کیسے ہوا تھا

میں چھوٹا سا صدف تھا ایک بحرِ نیل گوں میں
تو مجھ میں ایک درِّ بے بہا کیسے ہوا تھا