شام کہیں لہرائی جاگی
آنکھوں میں تنہائی جاگی
پھر چمکے موتی اندر کے
دریا کی گہرائی جاگی
گونجی رات مرے کانوں میں
ایک صدا صحرائی جاگی
پھر ڈھول بجایا پتوں نے
پیڑوں پر شہنائی جاگی
کمرے کی خاموشی سن کر
آنگن میں پروائی جاگی
نیند کی میٹھی موسیقی میں
طبلے کی انگڑائی جاگی
مدت کے سناٹے سہہ کر
دیواروں پر کائی جاگی
گلے ملے دو موسم آکر
منظر میں گیرائی جاگی
کھل گیا مجھ پر میرا رستہ
گلیوں میں دانائی جاگی