غزل

یہ تحریر 558 مرتبہ دیکھی گئی

شام کہیں لہرائی جاگی
آنکھوں میں تنہائی جاگی

پھر چمکے موتی اندر کے
دریا کی گہرائی جاگی

گونجی رات مرے کانوں میں
ایک صدا صحرائی جاگی

پھر ڈھول بجایا پتوں نے
پیڑوں پر شہنائی جاگی

کمرے کی خاموشی سن کر
آنگن میں پروائی جاگی

نیند کی میٹھی موسیقی میں
طبلے کی انگڑائی جاگی

مدت کے سناٹے سہہ کر
دیواروں پر کائی جاگی

گلے ملے دو موسم آکر
منظر میں گیرائی جاگی

کھل گیا مجھ پر میرا رستہ
گلیوں میں دانائی جاگی