غزل

یہ تحریر 612 مرتبہ دیکھی گئی

کسی خودساختہ  معیار پر زندہ نہیں تھا
میں سرافراز تھا، دستار پر زندہ نہیں تھا

فقط اک مقبرے کے دم سے ساری شہرتیں تھیں
محل اپنے کسی معمار پر زندہ  نہیں تھا 

مری تاریخ آویزاں تھی تصویروں کی صورت
کوئی بھی شخص اس دیوار پر زندہ نہیں تھا 

نئے دکھ بھی تنفس کو رواں رکھے ہوئے تھے
میں تنہا عشق کے آزار پر زندہ نہیں تھا

پس-طوفاں،کٹی شاخیں تھیں اجڑے گھونسلے تھے
پرندہ, کوئی بھی اشجار پر زندہ نہیں تھا

مجھے عشق-فراواں بھی ہوا رزق-فراواں
میں آب ودانہ کی مقدار پر زندہ نہیں تھا

وہ زندہ تھا،وہ زندہ ھے دلوں کی دھڑکنوں میں
جو تیری جیب کے اخبار پر زندہ نہیں تھا

کہانی سب کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے تھی
کوئی کردار بھی کردار پر زندہ نہیں تھا

ضرورت بھی رگوں میں رینگتی تھی خون کے ساتھ
وہ مفلس نبض کی رفتار  پر زندہ نہیں تھا

رانا غلام محی الدین کی دیگر تحریریں