غزل

یہ تحریر 437 مرتبہ دیکھی گئی

وہ شعلہ تھا گلِ مہتاب کیسے ہو گیا تھا
میں موجِ آب سے گرداب کیسے ہو گیا تھا

تری آنکھوں میں کچھ اک روز میں نے پڑھ لیا تھا
مری ہستی کا تو اک باب کیسے ہو گیا تھا

تمھی نے ایک دن اک گھونٹ مجھ کو پی لیا تھا
میں دریا تھا تو اک تالاب کیسے ہو گیا تھا

مری آنکھوں کو اک دن ہونٹ تیرے چھوگئے تھے
پھر اس کے بعد میں بے خواب کیسے ہو گیا تھا

وہ ساون کی گھٹا تھی اور ابھی برسی نہیں تھی
مرا باغِ بدن سیراب کیسے ہو گیا تھا

مرے چہرے کے اوپر تیرا چہرہ سو رہا تھا
جو تیرا تھا وہ میرا خواب کیسے ہو گیا تھا

ترے جیسے وہاں پر جانے کتنے اور بھی تھے
تو میرا گوہرِ نایاب کیسے ہو گیا تھا