غزل

یہ تحریر 624 مرتبہ دیکھی گئی

دستک دوں جس پہ شہر میں وہ در کوئی نہیں
پھرتا ہوں کوچہ کوچہ مرا گھر کوئ نہیں
لڑتا ہوں اپنے آپ سے اب اس یقیں کے ساتھ
دنیا میں جیسے میرے برابر کوئ نہیں
اک بار ہی سمیٹ لے یہ حسن دل فریب
اس راستے پہ خواب مکرر کوئی نہیں
ان بستیوں کے خواب کسی نے اچک لیے
آنکھیں ہیں اور آنکھوں میں منظر کوئی نہیں
آواز دیتے جاتے ہو ویرانیوں کو تم
پیچھے تو مڑ کے دیکھو برادر کوئی نہیں